کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 150
ترجمہ:ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ یہاں’’ قرب ‘‘سے ملائکہ کا قرب مرادلیاگیاہے(جو ظاہر سے عدول قرار پائے گا) اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تدبر وتفکر سے کام لیں تو یہاں قرب سے مراد ملائکہ ہی کا قرب ہے، اور ملائکہ کا قرب مراد لینا ،معنیٔ ظاہر سے انحراف نہیں ہے(بلکہ ظاہرِ سیاق کا عین مقتضیٰ یہی ہے) پہلی آیت ِ کریمہ میں قرب،ایک ایسی قید کے ساتھ مقید ہے جس سے صراحۃً قربِ ملائکہ ظاہر ہورہا ہے،پوری آیتِ کریمہ ملاحظہ فرمائیے: [وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۝۱۶ اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ۝۱۷ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ۝۱۸ ] [1] ترجمہ: اور ہم اس کی رگ ِجان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں،جس وقت دو لینے والے جالیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے ،انسان منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ میں قولہ تعالیٰ [اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ ] اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد ملنے والے دو فرشتوں(یعنی کراماً کاتبین) کا قرب ہے۔ دوسری آیت میں جس قرب کا ذکر ہے ،وہ اس شخص کی حالت کے بیان کے ساتھ مقید ہے جس پر سکرات الموت طاری ہوجائیں،اور ظاہر ہے کہ سکرات الموت کے وقت ملائکہ ہی ظاہر ہوتے ہیں۔جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
[1] ق:۱۸-۱۶