کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 149
اپنی سابقہ تحریر میں سے لفظ ’’ذاتی ‘‘ ہٹانا ضروری سمجھتا ہوں(کیونکہ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی خلق کے ساتھ معیت بذاتہ ہے،جو قطعاً ہمارامقصود نہیں) واضح ہوکہ ہر وہ لفظ جو اللہ تعالیٰ کے بذاتہ زمین پر ہونے یا مخلوقات کے ساتھ مختلط ہونے،یا اس کے علو اور استواء علی العرش کی نفی کرنے پر منتج یا مسلتزم ہووہ باطل ہے،اس کا رد اور انکار ضروری ہے ،کہنے والا کوئی بھی ہواور وہ جو لفظ بھی کہہ جائے ۔ ہر وہ کلام جو خواہ بعض افرادکو ہی،اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں مبتلائے وہم کردے اس سے بچناضروری ہے،تاکہ ایک شخص بھی اس کے اُس ایک لفظ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بارہ میں ظنِ سوء میں گرفتار نہ ہوجائے…لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارہ میں جو کچھ بھی اپنی کتابِ مقدس میں ثابت فرمایا،یااپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے کہلوایا اس کا اثبات فرض ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں اوھام وشبہات پیداکرکے اللہ تعالیٰ کی طرف نامناسب اور غیرلائق عقائد منسوب کرنے والوں کا رد اور ان کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔(واللہ المستعان) ساتویں اور آٹھویں مثال: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۝۱۶ ][1] ترجمہ:اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ نیز فرمایا:[وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْكُمْ ][2]
[1] ق:۱۶ [2] الواقعۃ:۸۵