کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 147
میں پوری طرح پھانس لیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت وسلامتی کا سوال کرتے ہیں۔ تیسری تنبیہ:قارئینِ کرام!ایک مجلس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی اپنے خلق کے ساتھ اپنی معیت کے حوالے سے گفتگو کی،جسے بعض طلباء نے تحریر کردیا،پھر وہ تحریر منظرِ عام پر آگئی،اس وقت ہم نے اللہ تعالیٰ کی معیت کے بارہ میں یہ بتلایا: ’’ہماراعقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت حقیقی اورذاتی ہے،ایسی معیت جو اسکی شانِ باکمال کے لائق ہے اورایسی معیت جو اس امر کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ باعتبارِ علم، قدرت،سمع،بصر،بادشاہت اورتدبیر ہر شیٔ کا احاطہ کیئے ہوئے ہے،اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک اور منزہ ہے کہ وہ مخلوقات کے ساتھ مختلط ہویا ان میں حلول کیئے ہوئے ہو،بلکہ وہ اپنی ذات اور صفات کے ساتھ بلند ہے،اور بلندی پر ہونا اس کی وہ صفتِ ذاتیہ ہے جو کبھی اس سے الگ نہیں ہوتی،اور وہ عرش پر مستوی ہے جیسے اس کی عظمت وجلالت کے لائق ہے،اور اس کا سب سے بلندی پر ،عرش پر مستوی ہونا معیت مع الخلق کے منافی نہیں ہے،کیونکہ :[لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ۝۰ۚ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝۱۱ ][1] ’’ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے دیکھنے والاہے‘‘ واضح ہوکہ ہمارے اس بیان میں اللہ تعالیٰ کی معیت کیلئے ’’ذاتی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس سے ہمارا مقصود صرف حقیقتِ معیت کی تاکیدتھا،یہ مقصود ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ زمین پر اپنی مخلوق کے ساتھ ہے۔(جیسا کہ حلولیہ کا عقیدہ ہے)ہم نے اسی بیان میں
[1] الشوریٰ:۱۱