کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 146
کرنے والا یاپریشان حال جب اپنے پروردگار کی طرف لاچار ہوتا ہے تو وہ اوپر کی طرف کیوں دیکھتا ہے؟اس موقعہ پر وہ دائیں یابائیں کیوں التفات نہیں کرتا؟اس کے دل میں بداھۃً توجہ الی العلو کا خیال راسخ ومرتکز ہوتاہے۔نمازیوں سے پوچھو کہ سجدہ میں [سبحان ربی الاعلیٰ] کہتے ہوئے تمہارے دلوں کا اتجاہ کس طرف ہوتا ہے؟۔ جہاں تک دلیلِ اجماع کاتعلق ہے تو تمام صحابہ ،تابعین اورأئمہ سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے،اس بارہ میں ان کا کلام نصاً وظاہراً موجود ہے۔ امام اوزاعی فرماتے ہیں: ’’کنا والتابعون متوافرون نقول ان ﷲ تعالی ذکرہ فوق عرشہ ونؤمن بما جاء ت بہ السنۃ من الصفات ‘‘[1] یعنی :ہم تابعین کی کثیر تعداد کی موجودگی میں کہاکرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر ہے، نیز ہم احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر ایمان لاتے ہیں۔ بہت سے اہلِ علم نے اس پاکیزہ عقیدہ پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے،اور اس بارہ میں کسی کا مخالفت کرنا محال ہے،جبکہ اس عقیدئہ مبارکہ کو بڑے عظیم دلائل کی تائید ومطابقت بھی حاصل ہے۔ ان دلائل کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے جس میں کبروطغیان کا عنصر ہو،جس کی بصیرتِ قلب مطموس ومشبوہ ہو اور جسے، شیاطین فطرتِ سلیمہ سے محروم ومنحرف کرکے اپنے ناپاک چنگل
[1] اس اثرکو امام بیہقی نے’’ الاسماء والصفات‘‘ (۲/۱۵۰) اور الذہبی نے ’’السیر‘‘(۷/۱۲۰،۱۲۱) اورتذکرۃ الحفاظ (۱/۱۸۱،۱۸۲) میں ذکر کیا ہے ،امام ذھبی نے اس اثر کو صحیح کہا ہے،شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’الحمویۃ‘‘ اور ابن القیم نے ’’اجتماع الجیوش‘‘ میں صحیح کہا ہے۔