کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 140
ہے، اور آپ کے ہر معاملے کی تدبیر فرماتا ہے، وہ درحقیقت آپ کے ساتھ ہی ہے،اگرچہ وہ حقیقتاً اپنے عرش کے اوپر ہے کیونکہ معیت ایک جگہ اکٹھا ہونے کو مستلزم نہیں ہے۔ (۳) تیسری و جہ: اگر معیت(ساتھ ہونا) اور علو(بلند ہونا) ہر دوصفات کے مخلوقین کے حق میں جمع ہونا ناممکن مان لیں تو اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتاکہ یہ دونوں حقیقتیں خالق کے حق میں بھی جمع نہیں ہوسکتی ،وہ خالق جس نے خود ان دونوں صفات کو اپنے لیئے بیان فرمایا ہے،کیونکہ مخلوقات میں سے کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کی مماثلت نہیں کرسکتی۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ۝۰ۚ وَہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝۱۱ ][1] شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے مجموع الفتاویٰ کے العقیدہ الواسطیۃ (۳/۱۴۲) میں اسی نکتہ کی وضاحت فرمائی ہے : ’’ قرآن وحدیث میں جو اللہ تعالیٰ کا قرب ومعیت مذکور ہے،وہ اللہ تعالیٰ کے’’ علو‘‘ و’’فوقیت‘‘ کے منافی نہیں ہے،کیونکہ تمام صفات میں اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں ہے،وہ ذات قریب ہونے کے باوجود علو وبلندی پر ہے اور بلندہونے کے باوجود قریب اورنزدیک ہے۔ تتمۂ بحث :اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت کے سلسلہ میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں : (۱) وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ معیت کا معنی ومقتضیٰ یہ ہے کہ وہ مخلوقات کے امور واحوال کا علم واحاطہ رکھنے والاہے ،یہ معیتِ عامہ ہے۔دوسرا معنی ومقتضیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں کی نصرت وتائید فرماتا ہے،یہ معیتِ خاصہ ہے۔ان ہر دومعانی
[1] الشوریٰ:۱۱