کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 138
اور اگر تدبر کے باوجود مسئلہ کی حقیقت آپ پر واضح نہ ہوسکے تو راسخین فی العلم کا منہج اپنالوجو ایسے موقعہ پر وہی کچھ کہتے ہیںجوقرآن نے بتایا:[اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ](ہم اس پر ایمان لاتے ہیں یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔) چنانچہ اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو،جوکتاب کونازل فرمانے والاہے،اور جو حقیقی علم رکھتا ہے…کمی اورکوتاہی آپ کے علم وفہم میں ہے (نہ قرآن مجیدمیں)قرآنِ حکیم تو ہر قسم کے تناقض سے پاک ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے قولِ مذکور میں ’’کما جمع ﷲ بینھما ‘‘ کہہ کر اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایاہے۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں خبر دی ہے کہ وہ اپنی خلق کے ساتھ ہے اور یہ بھی خبر دی ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحدید کی آیت میں ان دونوں حقیقتوںکا ذکر جمع فرمادیا ہے اوربتلایاہے کہ اس نے آسمانوں اورزمینوں کو پیدافرمایااور وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا اور وہ اپنی خلق کے ساتھ ہے اس طرح کہ وہ اپنے عرش سے ان کے تمام اعمال کو دیکھتا ہے،جیسا کہ حدیث الاوعال میں ہے[اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے اور تمہارے تمام امور کو دیکھ رہاہے] لہذااللہ تعالیٰ کا علو(بلندی) پر ہونا، اسکے معیت مع الخلق کے متناقض نہیں اور اس کی معیت مع الخلق،اس کے علو کو باطل نہیں کرتا،بلکہ یہ دونوںحقیقتیں برحق ہیں۔[1] (۲)دوسری وجہ: معیت کا معنی حقیقۃًعلو کے متناقض نہیں ہے،بلکہ معیت اورعلو دونوں کاجمع ہونا ممکن ہے، بلکہ ایک مخلوق کے لیئے بھی ممکن ہے کہ اس میں معیت اور علو یکجا ہوجائیں۔
[1] مختصر الصواعق لابن الموصلی ص:۴۱۰