کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 135
ہونے کا معنی ومقتضیٰ یہ ہے کہ وہ ان کے تمام احوال سے باخبر ہے ،ان کی ہربات سنتا اور ہرفعل دیکھتا ہے،ان کے امور وحاجات کی تدبیر فرماتا ہے،زندہ کرتا ہے اور مارتاہے، مالدار اور فقیر کرتا ہے،جس کو چاہے بادشاہت دے دیتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے،جسے چاہے عزت اور جسے چاہے ذلت عطافرمادیتا ہے اور اسکے علاوہ وہ تمام امور انجام دیتا ہے جن کا اس کی شانِ ربوبیت وکمالِ بادشاہت تقاضہ کرتی ہے ۔اس کے اور اس کی خلق کے درمیان کوئی چیز حا ئل یاحاجب نہیں ہے۔جس کے علم واحاطہ وقدرت کی یہ شان ہوتو وہ حقیقۃً خلق کے ساتھ ساتھ ہے اگرچہ وہ حقیقت میں سب سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ لابن القاسم کے العقیدۃ الواسطیۃ (۳/۱۴۲) میں صفتِ معیت پر کلام کیلئے ایک الگ فصل قائم کرکے فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا یہ تمام کلام کہ وہ اپنے عرش پر ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے، حق ہے اور اپنی حقیقت پر قائم ہے ،کسی تحریف کا محتاج نہیں ہے،البتہ اسے جھوٹے اورباطل افکار وظنون سے بچاناضروری ہے (تاکہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہوجائے ) مزید الفتویٰ الحمویۃ (۵/۱۰۲ ، ۱۰۳)میںفرماتے ہیں: ’’ حاصلِ امر یہ ہے کہ کتاب وسنت سے مکمل ہدایت ونور حاصل ہوتے ہیں،بشرطیکہ انسان صرف کتاب وسنت ہی پر تدبر کرے،صرف اتباع ِ حق اس کا مقصود ہو، نصوصِ کتاب وسنت میں ہرقسم کی تحریف ،اور اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں ہر قسم کے الحاد کے ارتکاب سے اعراض واجتناب کرنے والا ہو۔