کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 134
تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۴ ][1] ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا،وہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اورجو آسمان سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے،اورجہاںکہیں تم ہووہ تمہارے ساتھ ہے اور جوتم کررہے ہو اللہ دیکھ رہاہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ معیت کے ذکر سے قبل اپنے مستوی علی العرش ہونے کا ذکر فرمایا،نیز عمومِ علم کا بھی تذکرہ فرمادیا۔اور آیت کے آخر میں یہ حقیقت بھی صراحتاً بیان فرمادی کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ اب اس آیت کا معنیٔ ظاہر وحق کھل کر اورنکھر کر سامنے آگیا کہ اللہ تعالیٰ کی معیت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے بندوں کا پوراعلم ہے اور وہ ان کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی ذات مخلوقات میں سب سے بلند اپنے عرش پر مستوی ہے ،لہذا نہ تو وہ مخلوقات کے ساتھ مختلط ہے اور نہ ہی زمین کے اوپر ان کے درمیان موجود ہے۔ورنہ یہ لازم آئے گا کہ یہ آیتِ کریمہ آپس میں بُری طرح متضاد ومتناقض ہے،چنانچہ شروع کا حصہ اللہ تعالیٰ کے’’ علو‘‘اور’’ استواء علی العرش‘‘ کا اعلان کررہاہے اور نعوذباللہ آخری حصہ زمین پر موجود ہونے اور خلق کے ساتھ مختلط ہونے کا تذکرہ کررہا ہے ۔(تعالیٰ ﷲ عن ذلک علواکبیرا) بہرحال ہماری اس تقریر وتوضیح سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ
[1] الحدید:۴