کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 132
یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی صفتِ معیت کا ذکر ہے اورسیاقِ مقام سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہاں معیت سے مراد، اللہ تعالیٰ کے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ نصرت اورتائید فرمانے کے بھی ہے۔ چونکہ سیاقِ آیت سے یہی معنی ثابت ہورہا ہے لہذا یہاں یہی معنی ،معنیٔ ظاہر وحق ہے۔ شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں: لفظِ معیت ،قرآن وحدیث میں مختلف مقامات پر وارد ہوا ہے اور ہرمقام پر اس کا معنی و مقتضیٰ دوسرے مقام سے باعتبارِسیاق مخالف ہوسکتاہے،یہ بھی ممکن ہے کہ لفظِ معیت کا استعمال جہاں جہاں ہوا ہے اگر ان تمام مقامات پر غور کریں تو معنوی اعتبار سے کوئی قدرِ مشترک ہو،لیکن ہر مقام پر باعتبارِ سیاق کوئی ایسی خاصیت ہوجو ایک جگہ کے معنی کو دوسری جگہ کے معنی سے ممتاز کردے ۔ بہرحال دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، خلق میں مختلط نہیں ہے،اور یہ نتیجہ معنیٔ ظاہر سے ہرگز عدول نہیں ہے،کماتقدم۔ اس حقیقت کو مزید سمجھنے کیلئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ معیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ اپنی خلق کے ساتھ مختلط ہے اور بذاتہ ان کے درمیان موجود ہے،سورۂ المجادلۃ کی اس آیت پر کہ جس میں صفتِ معیت کا ذکر ہے دوبارہ غورکیجئے : [اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۝۰ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ