کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 131
سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہاں معیت کا معنی،حکم یامقتضیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر پوری پوری طرح مطلع، باخبر اور گواہ ہے، تمہارے تمام امور جانتاہے اور تمہارا پوری طرح احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں سلفِ صالحین کے قول ’’انہ معھم بعلمہ‘‘ کا یہی معنی ومرادہے۔ اس آیتِ کریمہ میں معیت کا یہی معنی،معنیٔ ظاہر وحقیقی قرار دیا جائے گا،اسی طرح اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرمان میں بھی سیاقِ آیت معیت کے اسی معنی پر دلالت کررہا ہے: [مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۝۰ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۷][1] ترجمہ:تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اورنہ اس سے کم کا اور نہ زیادہ کا مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں،پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا،بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔ اب صفتِ معیت کے سلسلہ میں قرآنِ مجید کا ایک اور مقام ملاحظہ فرمائیے،ہجرت کے موقعہ پر غارِ ثور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا: [لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا۝۰ۚ ][2] یعنی: غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
[1] المجادلۃ:۷ [2] التوبۃ:۴۰