کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 129
(۲) اللہ تعالیٰ کا مخلوق میں اختلاط وحلول،اللہ تعالیٰ کی صفتِ علو کے منافی ہے، حالانکہ اس ذات کا علو کتاب،سنت، عقل،فطرت اور اجماعِ سلف سے ثابت ہے۔ اب جو صفت اتنے ٹھوس دلائل سے ثابت ہے اس کے منافی ومخالف ہر معنی باطل ہوگا،اور یہ بطلان ان تمام دلائل سے ثابت ہوگا جن سے اس کے منافی صفت ثابت ہورہی ہے،توچونکہ اللہ تعالیٰ کا علوکتاب،سنت، عقل،فطرت اور اجماعِ سلف تمام دلائل سے ثابت ہے،لہذا اس کا اختلاط وحلول فی الخلق،کتاب،سنت،عقل،فطرت اوراجماعِ سلف تمام دلائل سے باطل ہوگا۔ (۳) تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اختلاط وحلول کو مان لیں تو اس سے بہت سے ایسے امور لازم آتے ہیں جو باطل ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہرگز شایانِ شان نہیں ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی کماحقہ قدر بھی جانتا اور کرتاہو،نیز اسے کلامِ عرب، کہ جس میں قرآنِ حکیم کانزول ہوا،میں معیت کا معنی ومدلول بھی معلوم ہو،تو اس کیلئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ معیت کی حقیقت یہ بتائے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے اندر موجود و مختلط ہے یاان کے اماکن ومقامات میں حلول کیئے ہوئے ہے، وہ تو یہ بھی نہیں کہے گا کہ اس کی صفت معیت کا تقاضہ ،اختلاط فی الخلق ہے چہ جائیکہ کہ صفتِ معیت کے اختلاط فی الخلق کے مستلزم ہونے کا عقیدہ رکھے،یہ تو ربّ جلّ وعلا کی عظمت سے جاہل وناآشنا شخص ہی کا عقیدہ ہوسکتاہے۔ جب اس قول کا بطلان واضح ہوگیا تو پھر یہ حقیقت متعین ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ معیت کے معنی کے سلسلہ میں دوسراقول حق ہے ،اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے ساتھ