کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 128
ترجمہ:اور نہ اس سے کم کا اور نہ زیادہ کا مگر وہ ساتھ ہی ہوتاہے وہ جہاں بھی ہوں۔ جواب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں کی اہل السنۃ نے جو تفسیرکی ہے وہ حقیقت اور معنیٔ ظاہر پر قائم ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ معیت (مخلوق کے ساتھ ہونا)کی حقیقت اور ظاہر کیاہے؟کیا صفتِ معیت یعنی مخلوق کے ساتھ ہونے کی حقیقت اور ظاہر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کے ساتھ مختلط ہے اور ان کی جگہوں اور چیزوںمیں حلول کیئے ہوئے ہے؟ یااس صفتِ معیت کی حقیقت اور ظاہر اس بات کو متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بذاتہ تو تمام مخلوقات کے اوپر،عرشِ معلیٰ پر مستوی ہے،لیکن اپنے علم،قدرت ،سمع،بصر،تدبیر،اور بادشاہت وغیرہ کے ساتھ پوری مخلوق کا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ پہلا قول ظاہرالبطلان ہے، آیات کا سیاق اس مفہوم کا ہرگز متقاضی نہیں ہے،نہ ہی کسی صورت اس پر دلالت کررہاہے،کیونکہ یہاں صفتِ معیت (ساتھ ہونا)اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے کہیںبڑی ہے کہ کوئی مخلوق اس کا احاطہ کرلے۔پھروہ لغت ِعرب جس میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس میں معیت اختلاط کو مستلزم نہیں ہے،نہ ہی کسی مقام پربذاتہ موجود ہونا ضروری ہے بلکہ مطلقاً مصاحبت کے معنی پر دال ہے۔(مصاحبت کی کوئی بھی صورت ہو) اب صفتِ معیت کی ہر مقام پر وہی تفسیر کی جائے گی جو مطابقِ سیاق اور مناسبِ مقام ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ معیت کو اختلاط اور حلول کے معنی میں لینا کئی وجوہ سے باطل ہے : (۱) یہ معنی سلفِ صالحین کے اجماع کے خلاف ہے۔اولاً:علماءِ سلف میں سے کسی نے بھی یہ معنی نہیں کیا ۔ثانیاً:اللہ تعالیٰ کے خلق میں اختلاط و حلول کے انکار پر سب کا اجماع ہے۔