کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 125
ینفس تنفیسا ونَفَسًا ‘‘سے مصدرِ ثانی ہے اس کے وزن پر دوسری مثال ’’فَرَّجَ یفرج تفریجا وفَرَجاً‘‘ دی جاسکتی ہے۔النھا یۃ،القاموس اور مقاییس اللغہ میں علماءِ لغت نے اسی طرح بیان فرمایاہے۔مقاییس اللغہ میں ہے ’’نَفَسَ‘‘ سے مرادمکروب یعنی کرب زدہ شخص کے کرب کو دور کرنا ہے۔‘‘ اب حدیث کا معنی یوںہوگا اللہ تعالیٰ کا مؤمنین کی تکالیف ومصائب کا دورکرنا یمن کی طرف سے ہوگا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اہلِ یمن ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مرتدین سے جنگیں لڑیں اوربہت سے علاقوں کوفتح کیا،لہذا ان کے ذریعہ رحمن نے مؤمنین کی مدد فرمائی اور ان کی تکالیف کاازالہ فرمایا‘‘[1] (توگویانَفَس کا مذکورۃ الصدر معنی ،معنیٔ ظاہر ہی ہے اوریہاں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں کی گئی) چوتھی مثال:[ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ][2] جواب: اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں اہل السنۃ کے دوقول منقول ہیں :ایک یہ کہ یہاں ’’استویٰ الی السماء‘‘ بمعنی’’ ارتفع الی السماء ‘‘ہے (مراد آسمان کی طرف چڑھنا اور بلند ہونا) معروف مفسر ابنِ جریر نے اسی معنی کو راجح قراردیا ہے،چنانچہ اپنی تفسیرمیں استواء الی السماء کے معنی کے بارے میں علماء کا اختلاف نقل کرکے فرماتے ہیں:’’ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَائِ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ ‘‘کا معنی یہ ہے کہ’’ پھر وہ آسمانوںپر چڑھا اوربلندہوااور اپنی قدرت سے تدبیر فرمائی،اورانہیں سات کی تعداد میں پیدا فرمایا۔‘‘ امام بغوی نے اپنی تفسیر میں
[1] مجموع الفتاویٰ ۶/۳۹۸ [2] البقرۃ:۲۹