کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 122
نے گویا اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا،اور اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دیا ‘[1] اس عبارت پر غور کرنے والے ہر شخص پر یہ بات واضح اور عیاں ہو گی کہ اس میں کسی قسم کاکوئی اشکال نہیں ہے، کیونکہ عبداللہ بن عباس نے حجر اسود کو مطلقاً اللہ تعالیٰ کا دایاںہاتھ قرار نہیں دیا، بلکہ زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ کہا ہے اور ظاہر ہے کہ لفظِ مقیدکا حکم لفظ مطلق سے مختلف ہوتا ہے۔ پھر یہ فرمایاکہ اس سے مصافحہ کرنے والا ،یا بوسہ دینے والا گویا اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کررہا ہے یا اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دے رہا ہے… جملے کی اس ساخت سے بصراحت واضح ہورہا ہے کہ حجراسود سے مصافحہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ سے قطعاً مصافحہ نہیں کررہا ،بلکہ حجر اسود سے مصافحہ کرنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کررہا ہے،چنانچہ حدیث کے پہلے اور آخری حصہ سے ثابت ہورہا ہے کہ حجر اسود اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے نہیں ہے،جیسا کہ ہر عقلمند اس بات سے واقف ہے ۔[2] دوسری مثال : [قلوب العباد بین الاصبعین من اصابع الرحمن] یعنی: تمام بندوں کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح مسلم کتاب القدر کے دوسرے باب میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت سے مذکور ہے،انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
[1] غریب الحدیث لابن قتیبۃ۲؍۹۶،تاریخ مکۃ للأزرقی۱؍۳۲۴ [2] مجموع الفتاویٰ ج ۶ص ۳۹۸