کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 120
کریں گے (لہذا اگر ایک لفظ کا معنی، کہیں کچھ ہو اور کہیں کچھ ہو تو اس اختلاف کو معنیٔ ظاہر سے انحراف قرار نہیں دیا جائے گا ،بلکہ ترکیبِ کلام اور سیاقِ کلام کی مناسبت سے جہاں جو معنی بنے گا وہاں وہی معنی ،معنیٔ ظاہر ہوگا) دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر اہل السنۃ کی قرآن وحدیث کی کسی نص کی کسی تفسیر کو ظاہری معنی سے عدول تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان کا یہ عدول قرآن وحدیث کی دلیل کی بناء پر ہوتا ہے ،خواہ وہ عدول وہیں مذکور ہو یاکسی دوسرے مقام پر ۔(گویا اہل السنۃ کا کسی مقام پر معنی ظاہر سے صرفِ نظر ،قرآن وحدیث کی دلیل کی بناء پر ہے ،جبکہ اہل تأویل کا نصوصِ قرآن وحدیث میں معنیٔ ظاہر سے انحراف ذاتی شبہات کی بناء پرہے) ذاتی شبہ تو کوئی دلیل نہیں ،مگر اہل تأویل اپنے ذاتی شبہات کو براھینِ قطعیہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کردہ وثابت کردہ صفاتِ باری تعالیٰ کی نفی کر بیٹھے ہیں۔(والعیاذ باللہ ) مفصل جوا ب: مفصل جواب کیلئے ہم ان تمام نصوص کا جائزہ لیتے ہیں جن کے بارہ میں اہل تأویل کا دعویٰ ہے کہ سلفِ صالحین نے ان میں ظاہری معنی سے روگردانی کی ہے،اس سلسلہ میں کچھ مثالیں (بمعہ تبصرہ وجواب) پیشِ خدمت ہیں۔ امام غزالی نے بعض حنابلہ سے نقل کیاہے ،وہ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل صرف تین احادیث میں تأویل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک’’ حجر اسود زمین میں اللہ کا دایاں ہاتھ ہے ‘‘۔