کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 116
ہے،تو یہ منہج تمہارے لیئے جائز اور ہمارے لیئے حرام اورناجائز کیوں ہے ؟جس طرح تمہاری عقول ہیں اسی طرح ہماری بھی عقو ل ہیں، اگر ہماری عقول غلط ہیں تو تمہاری عقول صحیح کیسے ہوگئیں ؟اور اگر تمہاری عقول درست ہیں تو ہماری عقول کیسے غلط ہوگئیں ؟ انکارِصفات کے ہمارے اس مذہب کی اساس وہی ہے جو تمہارے مذہب کی اساس ہے تو پھر تمہارا ،ہمارے مذہب کا انکار کرنا تحکم اور خواہشاتِ نفس کی اتباع کے سوا کچھ نہ ہوا ۔ جہمیہ اور معتزلہ کی یہ بات،اشاعرہ وماتریدیہ کیلئے ایک مسکت اوردندانِ شکن حجت کی حیثیت رکھتی ہے، جس کا اشاعرہ کے پاس کوئی جواب نہیں،ہاں صرف ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے اس مذہب سے توبہ کرکے،سلفِ صالحین کے مذہب کی طرف رجوع کرلیں ،اور قرآن وحدیث میں جو اللہ تعالیٰ کی اسماء وصفات مذکور ہیں، ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے ایسا اثبات ہو جو ہر قسم کی تمثیل وتکییف سے پاک ہو ،نیز جو صفات ِنقص ہیں ان سے اس ذات پاک کی اس طرح تنزیہ ہو کہ جس میں تعطیل یا تحریف کا کوئی شائبہ نہ ہو(یہ منہجِ سدید درحقیقت وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے سلفِ صالحین کو عطا فرمایا) [وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ۧ ][1] ترجمہ:جسے اللہ تعالیٰ ہی نورنہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔(وہ ہمیشہ ظلمتوں اور تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا ہے)اور یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے ممکن ہے ۔ واضح ہو کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کے انکار اور تعطیل کی روش اپنائے ہوئے ہیں وہ
[1] النور:۴۰