کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 115
اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت میں ہرگزپیدا نہ کیا جائے ،کیونکہ مخلوق کاصفتِ رحمت سے متصف ہونا مستلزمِ نقص ہے،جبکہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت ،صفتِ کمال ہے ۔ ہماری اس تقریر سے ثابت ہوا کہ معطلہ کا مذہب حتماً وقطعا ًباطل اور مردود ہے ،خواہ وہ تمام صفات کی تعطیل کے قائل ہوں یا بعض کی ، یہ بھی ثابت ہوا کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ نے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے سلسلہ میں جس منہج کو اختیار کیا ہے ،اوراس منہج کیلئے جس طریقِ استدلال کو منتخب کیا ہے اس سے معتزلہ اور جہمیہ کے شبہات کا ازالہ ممکن نہیں،( بلکہ اس سے تو ان کے مذہب کو تقویت حاصل ہوتی ہے ) اوراس کی دو وجوہ ہیں : (۱) ایک یہ کہ یہ راستہ بذاتِ خود بدعت ہے، اسماء وصفات کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سلفِ صالحین اور أئمہ اُمت اس راہ پر ہرگز نہیں چلے ،لہذا معتزلہ اورجہمیہ کا بدعی مذہب، اشاعرہ کے بدعی مذہب سے کیسے ردہوسکتا ہے ، بدعت کی ظلمت تو سنت کے نورسے مردود اور مندفع ہوتی ہے (نہ کہ ایک بدعت کے ردکیلئے دوسری بدعت کی ایجاد سے) (۲)دوسری بات یہ ہے کہ اشاعرہ اورماتریدیہ کا یہ طریقِ کار جہمیہ اورمعتزلہ کو مزید چور دروازہ فراہم کرنے کا باعث ہے اور وہ اس طرح کے جہمیہ اور معتزلہ ،اشاعرہ اور ماتریدیہ کے منہج کو ا پنے لیئے حجت بناکر ان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تم نے جن صفات کی نفی کی ہے اس کی بنیاد تمہاری اپنی اختراع کردہ عقلی دلیل ہے ،جبکہ ان صفات پر مشتمل دلیلِ سمع (قرآن وحدیث کے نصوص) کے رد کیلئے تم نے من مانی تأویل سے کام چلا لیا ،تو بعینہ اسی منہج کو ہم نے اختیار کیا ہے کہ ہم نے جن صفات کی نفی کی ہے وہ نفی دلیلِ عقل سے کی ہے اوردلیلِ سمع میں تأویل سے کام لیا