کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 114
’’وَرَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُوْ الرَّحْمَۃِ‘‘اور کہیں بصیغہ فعل ذکر ہوئی ہے ، مثلاً: ’’ویرحم من یشائ‘‘ پھر اللہ تعالیٰ کے صفتِ رحمت سے متصف ہونے کا اثبات، دلیل عقل سے بھی ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ بندوں پر ہمہ قسم کی پے درپے نعمتوں کا نزول،اور ہر لمحہ ان کی پریشانیوںکا ازالہ (جو سب اللہ کی طرف سے ہے) اس کیلئے صفتِ رحمت کے ثبوت کی انتہائی ٹھوس دلیل ہے ۔ اشاعرہ نے صفتِ ارادہ کے اثبات کے لیئے جو عقلی دلیل دی ہے اس کی رو سے صفتِ ارادہ کا مظہر خاص لوگ یا چند افراد ہیں، مگر صفت ِرحمت کااثرتو ہر خاص وعام پر واقع ہوتا ہے … اس لحاظ سے صفتِ رحمت کا ازروئے عقل ،اللہ تعالیٰ کیلئے ثبوت زیادہ واضح اور روشن ہے۔ اشاعرہ نے صفتِ رحمت کے رد کیلئے جو یہ شبہ وارد کیا ہے کہ صفتِ رحمت کا اللہ تعالیٰ کیلئے اثبات اس بات کومستلزم ہے کہ اس ذات کے اندر رحم فرماتے وقت نرمی اور رقت کے جذبات پیدا ہوں (جو ایک ایسا تغیر ہے جو اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہے ) ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ اگریہ حجت درست ہے ،تو اس جیسی حجت سے صفتِ ارادہ کا رد بھی ممکن ہے،اور وہ اسطرح کہ صفتِ ارادہ بھی تو اس بات کو مستلزم ہے کہ مرید (یعنی ارادہ کرنے والے) میںمراد (جس کیلئے ارادہ کررہا ہے) کیلئے جلبِ منفعت یا دفعِ ضررکا میلان پیدا ہو ،یہ بھی تو ایک ایسا تغیر ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اورمنزہ ہے ۔ اگر اشاعرہ اس کے جواب میںکہیں کہ ارادہ کی یہ شکل تو مخلوق کے ارادہ کے ساتھ خاص ہے، لہذا یہ معنی اللہ تعالیٰ کی صفتِ ارادہ میں پیدا نہ کیا جائے ،ہم جواب میں کہیں گے کہ صفتِ رحمت کی تفسیر جوتم نے کی ہے وہ بھی تومخلوق کے رحم کرنے اورترس کھانے کے ساتھ خاص ہے لہذا یہ معنی