کتاب: توحید اسماء و صفات - صفحہ 106
(۱) ان نصوصِ صفات کا جو ظاہری وحقیقی معنی ہے اور جو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی مراد ہے اس کے بارہ میں اس کا خیال ہے کہ یہ مراد نہیں ہے ۔ (۲) ان نصوص کا جو معنیٔ مخالف وہ مراد لے رہا ہے اس کی اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا ظاہری وحقیقی معنیٰ کوئی تائید نہیں کررہا ۔ یہ قاعدہ معلوم ہے کہ اگرکسی لفظ میں دو معانی کا احتمال ہو اور دونوں احتمال مساوی الدرجہ ہوں تو ان میں سے ایک معنی چھوڑ کر دوسرے کا تعین قولِ بلا علم ہے ۔ اور یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ معطلہ جس معنی کاتعین کررہے ہیں وہ متساوی الاحتمال تو ہر گزنہیں، بلکہ مرجوح ہے ،بلکہ ظاہرِ کلام کے بالکل مخالف ہے ۔ مثال: اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا تھا : [مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ۝۰ۭ][1] ترجمہ: جسے میں نے اپنے دونوںہاتھوں سے بنایا اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟۔ اب یہاں اللہ تعالیٰ کے کلام کے ظاہر سے یہی ثابت ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں … ان لوگوں نے اس کلام کو ظاہری معنیٰ سے پھیرا اور کہا کہ یہاں حقیقی ہاتھ مراد نہیں ہیں، بلکہ ہاتھ سے یہ مراد ہے، وہ مراد ہے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ : ا ولاً:جس چیز کی تم نے نفی کی اس کی دلیل پیش کرو ؟
[1] ص:۷۵