کتاب: توبہ و تقویٰ اسباب ، وسائل اور ثمرات گناہوں کے اثرات - صفحہ 148
ہٹ کر چل رہا ہے ، اور اس کا گمان یہ ہے کہ وہ ان سے مل کررہے گا یہ محض جہالت اور خام خیالی ہے۔اگرچہ وہ بعض معاملات میں ان کی پیروی ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔ کیوں کہ خود پسندی ، تکبر ، اور اپنے اعمال پر تعجب ان آباء کے اعمال اور عادات میں سے نہیں تھا۔بلکہ ان کو یہ شرف اللہ تعالیٰ کی مخلصانہ اطاعت گزاری کی وجہ سے ملا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے :
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ﴾
(الحجرات:۱۳)
’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے،اور ہم نے تمہیں قبائل اور خاندان اس لیے بنایا ہے تاکہ تم پہچان حاصل کرسکو، تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہو کر فرمایا :
((یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ ! اِعْمَلِیْ، لَا أُغْنِيْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئاً۔)) [متفق علیہ]
’’ اے فاطمہ بنت محمد ! عمل کرو، کل میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ بھی کام نہ آؤں گا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((لَا أَلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِيْئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ بِعَیْرٌ لَّہ رُغآئٌ، فَیَقُوْلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَغِثْنِيْ؛ فَأَقُوْلُ: لَا أَمْلِکَ لَکَ شَئْیاً قَدْ أَبْلَغْتُکَ۔)) [متفق علیہ]
’’ تم میں سے کسی کو میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کو آئے اور اس کی گرد ن پر اونٹ