کتاب: توبہ و تقویٰ اسباب ، وسائل اور ثمرات گناہوں کے اثرات - صفحہ 147
﴿مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہُ o مِنْ نُّطْفَۃٍ خَلَقَہُ فَقَدَّرَہُ ﴾
(عبس:۱۸،۱۹)
’’ اسے کس چیزسے پیدا کیا ہے ، اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے۔‘‘
یعنی پھر وہ مٹی بن جائے گا ، پھر اللہ تعالیٰ اسے اسی مٹی سے ہی دوبارہ زندہ کریں گے۔ حقیقت میں انسان کا اپنی پیدائش میں غور وفکر ہی تکبر کا اصلی اور بنیادی علاج ہے۔ اور فرمایا :
﴿ اِقْرَاْ کَتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْْکَ حَسِیْباً﴾ (الاسراء:۱۴)
’’ اپنی کتاب کوخود ہی پڑھ لے ، آج تو تُوخود ہی حساب لینے کے لیے کافی ہے۔‘‘
٭ حسن وجمال کی وجہ سے تکبرکا مرض لاحق ہوا ہو؛ تو اسے چاہیے کہ اپنے باطن کو عقلاء کی نظر سے دیکھے۔ جانوروں کی طرح صرف اپنے ظاہر کو نہ دیکھے۔
٭ کسی کو اپنی قوت اورطاقت کی وجہ سے تکبر ہو تو اسے چاہیے کہ اس بات پر چندلمحات کے لیے غور وفکر کرے کہ اگر اس کے دانت میں معمولی سی چیز اٹک جائے ، جسے اس نے اپنی مرضی سے منہ میں ڈالا تھا ، تو اس کے سامنے انسان عاجز ہوجاتا ہے ، اور اس کی تمام تر توانائیاں جواب دے دیتی ہیں ، اور وہ وا ویلا کرنے لگتا ہے۔
٭ کسی کو اپنے علم پر تکبر ہو تو اسے جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہونے والی حجت جہلاء کی نسبت اس پر بڑھ کر ہے۔ اورکہ اس خطرہ پر بھی غور وفکر کرے جو اس کے سینہ میں پوشیدہ ہے۔ کیوں کہ یہ کسی بھی دوسرے سے بڑھ کر خطرناک مرحلہ میں ہے۔ جیساکہ اس کی شان دوسرے لوگوں سے بلند ہے۔
٭ اس علاج کا دوسرا مقام یہ ہے کہ: جس کو اپنے حسب ونسب پر فخر ہو؛ جیسا کہ گمان کیا جاتا ہے۔ یہ دوسروں کے کمال سے اپنی عزت میں اضافہ کرنا ہے۔اوریہ سوچ کہ کوئی انسان اپنے شرف کی وجہ سے نجات پالے گا، یہ بھی ایک مرض ہے۔ اور اس کا علاج یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ جب وہ اپنے آباء اجداد کی راہ سے