کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 9
مجھے ان معروضات کو منظر عام پر لانے کی جرأت اس وقت اور بڑھ گئی جب میں نے بحث ومطالعہ کے بعد پایا کہ پیر یا شیخ کے بارے میں مبالغہ آمیز عقائد ورجحانات پر مجھ جیسے بے شمار طفلان مکتب کی تشویش کو متقدمین ومتأخرین میں سے ان اجلہ علما وصوفیا کی تائید حاصل ہے جن کی علم ومعرفت،زہد وتقویٰ،خلوص وللہیت اور تصوف وطریقت سے فکری وعملی وابستگی رہی ہے۔
امام قشیری،علامہ شعرانی،ملا علی قاری،شاہ اسماعیل دہلوی،سید احمد رائے بریلوی،مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہم اللہ جمیعا جیسے مشاہیر کی تحریرات اور اقتباسات کے بعد رد وقدح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی،قارئین ان مبارک ومحترم ہستیوں کے اقوال وتاثرات کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد ہی کتاب اور اس کے مشمولات پر کوئی فیصلہ صادر فرمائیں۔
کتاب میں بعض بعض مقامات پر اصل مراجع دستیاب نہ ہونے کی صورت میں دوسرے مراجع کے واسطے سے بھی معلومات اخذ کی گئی ہیں،البتہ اصلی اورثانوی دونوں مراجع کا حوالہ ساتھ میں مندرج ہے تاکہ بوقت ضرورت مراجعت میں سہولت ہو اور ساتھ ہی علمی امانت کا بھی یہی تقاضا ہے۔
کتاب ترتیب دیتے وقت یہ خیال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انداز بیان مناظرانہ یا جارحانہ نہ ہونے پائے جس سے خواہ مخواہ قاری کے اندر اشتعال پیدا ہو اور کتاب سے استفادہ کرنے سے رک جائے۔بلکہ بڑی ہی سادگی سے تمام حقائق معروضی انداز میں سامنے رکھ دیے گئے ہیں کہ وہ خود قاری کے دل کو دستک دے سکیں اور اسے غور وفکر اور اصلاح عمل پر مجبور کردیں،اپنی دیگر تالیفات میں بھی میں نے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔
یہ کتاب در حقیقت المعہد الإسلامي السلفي رچھا بریلی کے زیر اہتمام ۱۹۹۷ء میں ’’اسلام اور تصوف-ایک جائزہ‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں پیش کیے گئے مقالہ کا ایک جزء ہے۔مقالے کا اصل موضوع ’’تصور شیخ‘‘ تھا۔بعد میں مکتبہ