کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 8
واعمال سے مکمل براء ت کا اعلان ہوتا ہے۔یہ کتاب اس طرح کے ڈھیرسارے نمونوں سے آراستہ ہے جن کا آئندہ صفحات میں آپ مطالعہ کریں گے۔ یہاں یہ اشکال وارد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تصوف سے وابستہ اہل علم ونظر جب ان عقائد واعمال پریہ حکم لگاتے ہیں تو پھر ان میں سے بعض کے ساتھ ان کی وابستگی کیوں رہی ہے؟ کسی کی ذاتی لغزش کبھی بھی دلیل نہیں بن سکتی،افضل البشر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات وتعلیمات کے سامنے فرد بشر کے اعمال وتصرفات اسی وقت تک مقبول اور لائق اعتبار ہیں جب تک وہ ان ہدایات سے مطابقت رکھتے ہوں،مخالفت کی صورت میں بہر حال وہ نامقبول ہی قرارپائیں گے چاہے ذاتی طور پر ان افراد کا مقام ومرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو۔یہ حقیقت بھی ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ افضل البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کا کوئی بھی فرد چاہے علم وعمل کے اعتبار سے جس بلندی پر پہنچا ہوا ہو مگر وہ معصوم عن الخطا نہیں ہوسکتا،یہ امتیاز صرف انبیاء کے حصہ میں ہی آیا ہے۔اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا بے حد ضروری ہے کہ ان اولیاء واصفیاء سے کسی غلطی یا تقصیر کے صدور کو جائز ماننا کسی طرح سے ان کی توہین یا بے ادبی نہیں ہے بلکہ ان کی بشریت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ کتاب میں پیر یا شیخ کے بارے میں اہل طریقت کے جو مبنی بر مبالغہ تصورات وعقائد مذکورہیں ان کو انہی کے الفاظ وعبارات میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کسی طرح سے کسی قسم کی جانبداری یا ناانصافی کو درآنے کا موقع نہ مل سکے اور ساتھ ہی ساتھ قارئین کو کتاب کے مندرجات ومشمولات کے بارے میں کلی طور پر اطمینان حاصل رہے۔ان تصورات وعقائد کو شرع کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے دونوں بنیادی مآخذ قرآن کریم اور سنت رسول کی نصوص کے ساتھ ساتھ تصوف سے وابستہ علماومشایخ کی تحریروں سے بھی استناد کیا گیا ہے اور دیگر مکاتب فکر بالخصوص جنہیں تصوف مخالف تصور کیا جاتا ہے ان کی آراء واقوال کو عمداً شامل نہیں کیا گیا ہے،کیوں کہ عقائد واعمال کے رد وقبول کے سلسلے میں جو ماحول اور جو ذہنیت ایک عرصہ سے پنپ رہی ہے اس کے مد نظر ایسا ہی مناسب سمجھا گیا۔