کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 7
حصہ اول:اہل طریقت کے نزدیک شیخ کا مقام و مرتبہ
عرض مرتب(مقدمہ طبع اول)
تصوف وطریقت کے تعلق سے کسی کتاب،مضمون،تذکرہ یا سوانح پر جب بھی نظر پڑتی ہے تو اس میں سب سے خاص اور قابل توجہ چیز جو ہوتی ہے وہ یہ کہ اولیاء و مشائخ کے بارے میں سنسنی خیز واقعات،مافوق العادت تصرفات اور عام انسانی زندگی سے مختلف عجائب و خوارق سے بھری ہوئی زندگیوں کا تذکرہ ہوتا ہے جو قارئین کو غیر شعوری طور پر کسی اور ہی عالم میں پہنچا دیتی ہیں اور وہ ان برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں تعظیم و تقدیس کے غیر معمولی جذبات سے معمور ہو جاتے ہیں۔حتی کہ کبھی کبھی تعظیم و تکریم کے یہ جذبات جائز حدود و قیود کا دائرہ عبور کرکے ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں تک جانے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ملتی۔
تصوف جسے تقرب الی اللہ،تزکیہ نفس اور اصلاح و ارشاد کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے اس میں مذکورہ جذبات و رجحانات کی موجودگی سے شرعی تعلیمات اور دین کے مزاج سے معمولی واقفیت رکھنے والے فرد کو ہمیشہ تشویش رہی ہے،خاص طور سے اس صورت میں یہ تشویش دوچند ہو جاتی ہے جب کہ شرعی علوم و معارف کے حاملین کی ایک تعداد بھی طبقہ صوفیاء میں نظر آتی ہے جن کی موجودگی سے باقی لوگوں کو اپنے طریقہ عمل پر گامزن رہنے کا جواز اور حوصلہ ملتا ہے۔
لیکن معمولی بحث و تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ شرعی علوم و معارف پر نظر رکھنے والے طبقہ صوفیاء کے تذکروں اور حکایتوں میں موجود بعض بے اعتدالیوں اور لغزشوں سے قطع نظر جا بجا ایسی تصریحات بھی ملتی ہیں جن میں راہ تصوف کی بے اعتدالیوں پر نکیر اور ان سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے اور شرعی حدود وقوانین کو چیلنج کرنے والے عقائد