کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 62
کی صورت سے کام لے لیتے ہیں۔‘‘[1]
لیکن ایک دوسرے واقعے میں شیخ کے باخبر ہونے کی صراحت ملتی ہے،ملاحظہ فرمائیں:
’’مولانا اشرف علی تھانوی مولوی نظام الدین صاحب کرانوی سے،وہ مولوی عبد اللہ براقی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نہایت معتبر شخص ولایتی بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست جو کہ بقیۃ السلف،حجۃ الخلف،قدوۃ السالکین،زبدۃ العارفین،شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا حاجی امداداللہ صاحب چشتی صابری تھانوی ثم المکی سلمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت تھے۔حج خانہ کعبہ کو تشریف لے جاتے تھے،بمبئی سے آگبوٹ میں سوار ہوئے،آگبوٹ نے چلتے چلتے ٹکر کھائی اور قریب تھا کہ چکر کھا کر غرق ہوجائے،یا دوبارہ ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے،انہوں نے جب دیکھا کہ اب مرنے کے سوا چارہ نہیں،اسی مایوسانہ حالت میں گھبرا کر اپنے پیر روشن ضمیر کی طرف خیال کیا اور عرض کیا کہ اس وقت سے زیادہ کون سا وقت امداد کاہوگا اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر کارساز مطلق ہے،اسی وقت ان کا آگبوٹ غرق سے نکل گیا اور تمام لوگوں کو نجات ملی۔ادھر تو یہ قصہ پیش آیا،ادھر اگلے روز مخدوم جہاں اپنے خادم سے بولے ذرا میری کمر تو دباؤ نہایت درد کرتی ہے،خادم نے کمر دباتے دباتے پراہن مبارک جو اٹھایا تو دیکھا کمر چھلی ہوئی ہے اور اکثر جگہ سے کھال اتر گئی ہے۔پوچھا حضرت یہ کیا بات ہے کمر کیوں کر چھلی؟ فرمایا کچھ نہیں،پھر پوچھا آپ خاموش رہے،تیسری مرتبہ پھر دریافت کیا حضرت یہ تو کہیں رگڑ لگی ہے اور آپ تو کہیں تشریف نہیں لے گئے،فرمایا ایک آگبوٹ ڈوبا جاتا تھا اس میں تمہارا دینی اور سلسلے کا بھائی تھا اس کی گریہ زاری نے مجھے بے چین کر دیا،آگبوٹ کو کمر کا سہارا دے کراوپر کو اٹھایا۔جب آگے چلا اور بندگان خدا کو نجات ملی،اسی سے چھل گئی ہوگی اور اسی وجہ سے دردہے مگر اس کا ذکر نہ کرنا‘‘[2]
اس سلسلہ کی شرعی تعلیمات کا جہاں تک مسئلہ ہے وہ تو یہ ہے کہ حاجت روائی اور مشکل کشائی اللہ کی شان ہے،وہی ہر موڑ پر بندے کی دستگیری فرماتا ہے اور مشکل لمحات اور
[1] حکایات اولیاء، ص:۱۹۲-۱۹۴۔
[2] کرامات امدادیہ، ص:۳۶۔