کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 61
بکری کا پیدا ہوتا تھا میں اس کی اون کتروالیتا تھا اس طرح میں نے اون جمع کرواکے حاجی صاحب کے لیے ایک کملی بنوائی،اور اس وقت تک میں حاجی صاحب کی زیارت سے مشرف نہ ہوا تھا،بلکہ غائبانہ طور پر معتقد تھا،جب میں حج کے لیے گیا تو اس کملی کو اپنے ساتھ لے گیا،ایک جگہ ہمارا جہاز طغیانی میں آگیا اور جہاز میں ایک شور مچ گیا،میں چھتری پر تھا،وہاں سے اتر کر تتق کی جالیوں سے کمر لگاکر اور منھ لپیٹ کر ڈوبنے کے لیے بیٹھ گیا،کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اب کچھ دیر میں جہاز ڈوبنے والا ہے،اسی اثنا میں مجھ پر غفلت طاری ہوئی میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ نیند تھی یا غم کی بدحواسی،اسی غفلت میں مجھ سے ایک شخص نے کہا کہ فلانے اٹھو اور پریشان مت ہو ہوا موافق ہوگئی ہے،کچھ دیر میں جہاز طغیانی سے نکل جاوے گا،اور میرا نام امداد اللہ ہے،مجھے میری کملی دو۔میں نے گھبرا کر کملی دینی چاہی،اس گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل گئی اور میں نے لوگوں سے کہہ دیا کہ تم مطمئن ہوجاؤ جہاز ڈوبے گا نہیں،کیونکہ مجھ سے حاجی صاحب نے خواب میں بیان فرمادیا ہے کہ جہاز ڈوبے گا نہیں۔اس کے بعد میں نے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی حاجی امداد اللہ صاحب کو جانتا ہے؟ مگر کسی نے اقرار نہیں کیا آخر جہاز طغیانی سے نکل گیا اور ہم مکہ پہنچ گئے،میں نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ کوئی مجھے حاجی صاحب کو نہ بتلائے میں خود ان کو پہچانوں گا،جب میں طواف قدوم کررہا تھا تو میں نے طواف کرتے ہوئے حاجی صاحب کو مالکی مصلیٰ کے قریب کھڑے دیکھا اور دیکھتے ہی پہچان لیا،کیونکہ ان کی شکل اورلباس وہی تھا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔صرف فرق اتنا تھاکہ جب میں نے جہاز میں دیکھاتھا تو اس وقت آپ لنگی پہنے ہوئے تھے اور اس وقت پاجامہ،میں نہیں سمجھتا کہ اتنا فرق کیوں تھا۔خان صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے یہ وجہ بیان کی کہ جہاز کو طغیانی سے نکالنے کے لیے لنگی ہی مناسب تھی،اس لیے آپ نے لنگی پہنے دیکھا تھا۔سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں طواف سے فارغ ہوکر حاجی صاحب سے ملا اور کملی پیش اور جہاز کا قصہ عرض کیا۔آپ نے فرمایا:بھائی مجھے تو خبر بھی نہیں،اللہ تعالیٰ بعض وقت اپنے کسی بندے