کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 53
کی طرف متوجہ کرے اور کشف واقعہ مطلوبہ کا ہو۔‘‘ [1] شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ’’شفاء العلیل‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’نقشبندیوں کے عجائب تصرفات میں ہمت باندھنا کسی مراد پر،پس ہوتی ہے وہ مراد ہمت کے موافق،اور طالب میں تاثیر کرنا۔۔۔۔۔۔طالب میں تاثیر کا طریقہ یہ ہے کہ مرشد طالب کے نفس ناطقہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنی پوری قوی ہمت سے ٹکرائے پھر ڈوب جائے اپنی نسبت میں جمعیت خاطر سے،اور یہ تصرف اس کے بعد ہوگاکہ نفس مرشد کسی نسبت کا حامل ان بزرگوں کی نسبتوں میں سے اور اس نسبت کا اس کو ملکہ راسخہ ہو کہ ہر دم اس کے قابو میں ہو،پھر مرشد کی نسبت طالب کی طرف منتقل ہوگی اس کی لیاقت اور استعداد کے موافق،اور بعضے نقشبندی اس توجہ کے ساتھ ذکر کو اور طالب کے دل پر ضرب لگانے کو بھی ملا دیتے ہیں اور جب کہ طالب غائب ہوتو اس کی صورت کوخیال کرتے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یعنی غائب کو توجہ دیتے ہیں اس کی صورت خیال کرکے‘‘[2] اس کے بعد مصنف نے مشائخ نقشبندیہ کے مزید تصرفات بیان کیے ہیں جن میں بطریقہ مذکورہ بیماری کو مریض سے دفع کردینا،عاصی پر توبہ کا فیضان کرنا،لوگوں کے دلوں میں تصرف کرنا تاکہ وہ محبوب ومعظم ہوجائیں،ان کے خیالات میں تصرف کرنا تاکہ ان میں واقعات عظیمہ متمثل ہوسکیں،اہل اللہ کی نسبت پر مطلع ہونا زندہ ہوں یا مردہ،لوگوں کے خطرات قلبی اور سینوں میں خلجان پر مطلع ہونا،وقائع آئندہ کا مکشوف ہونا،بلائے نازل کو دفع کرنا،وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔[3] حاجی امداد اللہ مہاجر مکی بھی ’’ضیاء القلوب‘‘ میں ’’مشائخ کے تصرفات اور توجہ کا طریقہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’شیخ تمام باتوں سے خالی ہو اپنے نفس ناطقہ کی طرف،اس نسبت میں جس کا القاء مرید پر منظور ہو متوجہ ہو اور توجہ قلبی مرید کی طرف مائل کرکے کہ میری کیفیت جذب
[1] مخزن المعارف، ص:۲۵-۲۶۔ [2] القول الجمیل شرح شفاء العلیل، ص:۱۰۴۔ [3] ملاحظہ ہو: القول الجمیل شرح شفاء العلیل، ص:۱۰۴-۱۱۰۔