کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 51
’’ایک بار(مولانا حسین احمدمدنی)مسجد نبوی میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یک بیک ایسا محسوس ہوا کہ اپنا جسم،اپنا جسم ہی نہیں رہا،اور حضرت گنگوہی کا جسم بن گیا،بڑی دیر تک یہ کیفیت طاری رہی،چونکہ عقل انسانی غیر متوقع کیفیت کو آسانی سے قبول نہیں کرتی جب تک ٹھوس دلائل سے اس کو تسلیم کرنے پر مجبور نہ کردیا جائے،اس لیے شیخ الاسلام نے اس کیفیت کے ادراک کے لیے عقل کے تقاضے پر عمل کیا اور اپنے اعضاء کو وہ دانت سے کاٹتے تھے تاکہ معلوم کرسکیں کہ یہ جسم میرا ہے یا نہیں؟ اگر میرا جسم ہوگاتو یقینا تکلیف محسوس ہوگی اور بار بار اس عمل کو دہراتے رہے،ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد یہ کیفیت ازخود ختم ہوگئی،آپ نے اسی دن حضرت گنگوہی کو اس حیرت ناک کیفیت سے مطلع فرمایا تو جواب آیا کہ یہ سلوک و معرفت کی راہ میں فنافی الشیخ کی منزل ہے‘‘[1] قلبی کیفیات اور دل کے خطرات پر مطلع ہونے کے عقیدہ کے ساتھ ساتھ حمل میں بچہ ہے یا بچی؟ اس کا علم اور اسی طریقہ سے موت کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کا عمل بھی اولیاء و متصوفین کی جانب منسوب ہے۔چند حکایات ملاحظہ ہوں: مولانا حبیب الرحمن صاحب نے فرمایا: ’’ راؤ عبدالرحمن خان صاحب پنجلاسہ(پنجاب)میں حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے اور بڑے زبردست صاحب کشف و حالات تھے،کشف کی حالت یہ تھی کہ کوئی لڑکا لڑکی کے لیے تعویذ مانگتا بے تکلف فرماتے جا تیرے لڑکا ہوگا،یا لڑکی ہوگی،لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیسے آپ بتاتے ہیں؟ فرمایا کہ کیا کروں بے محابا مولود کی صورت سامنے آجاتی ہے‘‘[2] ’’مولانا قاسم نانوتوی فرماتے تھے کہ شاہ عبدالرحیم صاحب ولایتی کے ایک مرید تھے جن کا نام عبد اللہ خاں تھا اور قوم کے راجپوت تھے،اور یہ حضرت کے خاص مریدوں میں تھے ان کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی کے گھرمیں حمل ہوتا اور وہ تعویذ لینے آتا توآپ فرمادیا
[1] مآثر شیخ الاسلام از اسیر ادروی، ص:۶۱۔ [2] حکایات اولیاء، ص:۲۷۱۔