کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 49
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: ’’مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری کا قلب بڑا نورانی تھا،میں ان کے پاس بیٹھنے سے ڈرتا تھا کہ کہیں میرے عیوب منکشف نہ ہوجائیں‘‘[1] مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں: ’’مولوی محمد یعقوب صاحب دہلوی قلب کے اندر کے جو نہایت باریک چور ہوتے ہیں ان سے خوب واقف ہیں‘‘[2] دلوں کے خطرات سے مطلع ہونے اور مرید و شیخ کے درمیان قلبی رابطہ سے متعلق حکایات ذیل میں ملاحظہ ہوں: ’’مولانا عزیز الرحمن صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند مرحوم نے فرمایا کہ مولانا رفیع الدین صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت نانوتوی سے کچھ ایسی مناسبت تھی کہ جو کچھ مولانا کے قلب پر وارد ہوتا تھا اسی کا خیال مجھے گزرتا تھا۔اور حضرت قبلہ والد مرحوم نے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا کہ حضرت مولانا رفیع الدین صاحب فرماتے تھے کہ حضرت نانوتوی نے مدرسہ دیوبند کا اہتمام کبھی خود نہیں فرمایا کہ اہتمام کے لیے مجھے طلب فرمایا اور میں وہی کرتا ہوں جو انہیں مکشوف ہوتا ہے،علم ان کا ہے عمل میرا ہے،ان کی منشائے علمی و کشفی میں سمجھ کر فوراًعمل درآمدکرتا ہوں‘‘[3] تذکرۃ الرشید کے مصنف لکھتے ہیں: ’’ایک دن مولوی امیر خان صاحب نے حضرت قدس سرہ(مولانا رشید احمد گنگوہی)سے ایک قصہ بیان کیا کہ میں ایک روز مسجد حرام میں ایک بزرگ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس ایک نو عمر درویش آئے اور بیٹھ گئے وہ بزرگ جن کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا اس درویش کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ بھائی تمہارے قلب میں بڑی اچھی چیز ہے،ان بیچاروں نے اپنا حال چھپانا چاہا مگر انھوں نے پردہ ہی فاش کردیا کہنے لگے کہ
[1] حکایات اولیاء، ص:۴۲۲۔ [2] ایضا، ص:۱۴۰۔ [3] حکایات اولیاء، ص:۲۵۸-۲۵۹۔