کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 45
حدیث کے سیدھے راستے پر ثابت قدم ہو ایسے شخص کو اپنا ہادی اور مرشد مقرر کرے،لیکن ایسا نہ چاہیے کہ مرید ہر حال میں اس کی اتباع کو منظور رکھے،بلکہ مطلق پیشوا شرع شریف کو جانے اور بالاصالہ خدا اور رسول کے حکم کا متبع ہو،اور جو چیز شرع شریف کی رو سے مرشد فرمائے اسے دل اور جان کے ساتھ قبول کرے اور شریعت کے مباح امر کو اس کے حکم کی وجہ سے لازم جانے اور جو کچھ شریعت کے برخلاف کہے اس کی متابعت ہرگز نہ کرے بلکہ اس کو رد کردے،حدیث شریف میں وارد ہے ’’لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس حد تک پیر کی محبت منع ہے کہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول کی نافرمانی کو اس کی محبت کے پہلو میں گوارا کر لے،کیوں کہ یہ بات اللہ جل شانہ کے دربار سے دور ہونے کا باعث ہے،تمام محبتوں اور حقوق کی اصل اللہ تعالیٰ کی محبت اور حق ہے،اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے حق کے سامنے کسی اور محبت اور حق کو خیال میں لانا اس جل شانہ سے محجوب اور اس کی عنایتوں سے محروم ہونا ہے۔ اگر پیر کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد کسی طالب حق کو اس پیر میں کوئی منکر کام معلوم ہوجائے پس اس کو نصیحت کرے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے واسطے دعا کرے اور اگر وہ باز نہ آئے اور اس کام کو نہ چھوڑے تو اگر وہ کام فساد عقیدہ کی قسم سے ہے تو اس سے بیعت کو توڑ دے اور اس کو اپنا پیر و مرشد نہ جانے اور اگر وہ کام فساد عقیدہ سے نہ ہو تو بیعت نہ توڑے لیکن اس کو بلا میں مبتلا جان کر اس کام میں اس کی پیروی کرنا حرام جان کر اس بلا سے اس کی نجات میں ظاہری اور باطنی کوشش بجا لائے۔‘‘[1] تصوف کے ایک بڑے حامی پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں: ’’…اس طرح قارئین کو اس حقیقت سے آگاہی ہوجائے گی کہ پانچویں صدی ہجری [2]سے تصوف میں غیر اسلامی عقائد داخل ہونے شروع ہوگئے تھے اور چونکہ مسلمانوں کی دوسری جماعتوں کی طرح صوفیوں کے یہاں بھی تحقیق کا دروازہ بند ہوگیا تھا،
[1] صراط مستقیم، ص:۵۲-۵۳۔ [2] واضح ہو کہ تصوف میں غیر اسلامی عناصر پانچویں صدی ہجری سے بہت پہلے داخل ہونا شروع ہوگئے تھے۔