کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 43
نے بہت زیادہ آزادی فکر کا ثبوت دیا تو یہ کہہ کر سکوت اختیار کرلیا کہ ہم اس کی نہ تصدیق کرتے ہیں نہ تکذیب۔ شریعت کا یہ کلیہ ہے کہ ’’مجتہد‘‘ سے خطا بھی سرزد ہو سکتی ہے اور بزم تصوف میں اس رجحان و عقیدت کی نمود کہ کوئی شیخ کسی خلاف شریعت بات میں مبتلا ہو تو اس سے بھی حسن ظن ہی رکھنا چاہیے،بد عقیدہ نہ ہونا چاہیے،اس ذوق و مزاج،تعلیم و تربیت اور حسن عقیدت کا نتیجہ یہ نکلا کہ تسامحات اور غلطیوں کی تہ پر تہ جمتی چلی گئی یہاں تک کہ منصور حلاج اور سرمد جیسے غیر ذمہ دار اور بدعقیدہ لوگ اس فن کے مشاہیر اور اکابر قرار پائے۔ کہاں تو ہماری شریعت نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترک کو اللہ کے غیظ و غضب اور فتنہ و فساد کاسبب بتایا ہے اور کہاں ارباب تصوف اس فریضہ کی ادائیگی پر روحانیت اور عرفان کے سلب ہوجانے اور اس سے محروم ہوجانے کی وعید سناتے ہیں،ایک طرف ہمارے نبی کی یہ ہدایت ہے کہ ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور انجام دیتے رہنا ورنہ قریب ہے کہ اللہ رب العزت تمہارے اوپر اپناعذاب بھیج دے،پھر تم اس سے دعا کروگے تو تمہاری دعا بھی قبول نہ ہوگی‘‘[1] تو دوسری طرف ابن عربی اور ابن فارض کے ملحدانہ افکار و نظریات کی تردید کرنے والوں کو کتب تصوف عذاب جہنم میں مبتلا دکھاتی ہیں۔[2] قارئین خود بتلائیں کہ: ٭ کسی پیر کے دیدار کو اللہ کے دیدار سے ستر درجہ افضل بتانے والوں، ٭ پیر اور خدا دونوں کو ایک قرار دینے والوں۔ ٭ پیر کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سے بالا ثابت کرنے والوں، ٭ پیر کو خانہ کعبہ سے زیادہ قابل احترام تصور کرنے والوں،
[1] سنن ترمذی:۲۱۹۶، مسند احمد:۵؍۳۸۸۔بسند صحیح [2] ملاحظہ ہو، ص:۳۷