کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 41
علم بردار’’أنا أصغر ربي بسنتین‘‘[1](میں اپنے رب سے دو سال چھوٹا ہوں،(نعوذ باللہ)کے قائل محی الدین ابن عربی کو ’’شیخ اکبر‘‘ کے عہدے پر فائز کرتی اور اس جیسے افکار و عقائد کے حاملین صوفیہ کے ملفوظات و معمولات کومشعل راہ تصور کرتی ہے اور ان کے دفاع میں سیکڑوں ہزاروں صفحات سیاہ کرنے پر کمر بستہ رہتی ہے،اگر کسی نے ان نظریات و عقائد کو خلاف شرع کہنے کی جرأت کی تو اسے اولیاء اللہ کا دشمن قرار دیتی اور فیضان و عرفان سے محرومی کا سرٹیفکٹ عطا کرتی ہے۔ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے،صحابہ سے تابعین نے دینی تعلیم حاصل کی اور ان سے تبع تابعین نے،اور اسی طرح ائمہ فقہ و حدیث کے شاگردوں کا سلسلہ ملتا ہے،مگر اپنے شیوخ یا استاذکو’’ معصوم‘‘ یا ’’محفوظ‘‘ تصور کرنے اور ان کی ہر بات کو واجب التسلیم قرار دینے کی کوئی ضعیف مثال بھی نہیں ملتی۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا رعب و دبدبہ ا ور جاہ وجلال کس سے پوشیدہ ہے،آپ کو جب خلافت سونپی گئی تو آپ نے عوام سے اپیل کی کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سر زد ہوجائے تو آپ لوگ اس پر سکوت نہ اختیار کریں،ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: ’’قسم اللہ کی ہم آپ کے اندر کسی طرح کی بھی کجی دیکھیں گے تواس تلوار کی دھار سے اسے صحیح کر دیں گے۔‘‘ حضرت عمر ذرا بھی غصہ نہ ہوئے اور ان ’’مشائخ‘‘ کی طرح اس آدمی کوا س قسم کی کوئی وعید نہیں سنائی کہ تم سے روحانیت سلب ہوگئی یا تم بارگاہ الہٰی میں معتوب و مطرود قرار دیے گئے بلکہ حضرت عمر تو اس پر خوش ہوئے اور اطمینان کا اظہار کیا۔ خود ان سے پہلے خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زمام خلافت سنبھالتے ہی یہ اعلان فرماتے ہیں: ’’أیہا الناس !أطیعوني ما أطعت اللّٰه فیکم،فإن عصیتہ فلا
[1] کشاف اصطلاحات الفنون:۳؍۷۳۵، بحوالہ: مطالعہ تصوف، ص:۴۲۹۔