کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 39
کہ اللہ تعالیٰ کے یہ نیک بندے کتاب و سنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے تھے،ان کے رد و قبول کا معیار کتاب وسنت تھا،مگر وہ بہر حال انسان تھے،ان میں کوئی معصوم نہ تھا،اور ان میں سے کسی کے بھی اسوہ کو اسوہ رسول کا مقام نہیں دیا جاسکتا،ان بزرگان دین میں سے کسی کا کوئی قول و عمل کتاب و سنت کے مطابق اگر نہ پایا جائے تو اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں مگر ہمارے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اس قول و عمل کو چھوڑ دیا جائے،ایسا کرنے سے ان بزرگ کی چاہے وہ فقہ کے امام ہوں یا تفسیر و حدیث کے عالم،وہ قطب ہوں یا ابدال،نہ توہین ہوتی ہے اور نہ اس اختلاف سے دین و ایمان میں ذرہ برابر نقصان ہوتا ہے،بزرگان دین کی عزت و احترام کتاب و سنت کے ماتحت ہے،کتاب و سنت سے بلند و بالا ہرگز نہیں۔ایک مسلمان کے ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ وہ کتاب و سنت کے مقابلہ میں کسی قول و عمل کو وقعت نہ دے اور جب ان میں ٹکراؤ نظر آئے تو اس کی محبت،اطاعت،وفاداری اور رفاقت کتاب وسنت کے ساتھ ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے صاف الفاظ میں یہ ہدایت فرمادی ہے کہ: ’’لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق‘‘[1] مخلوق کی اطاعت سے خالق کی معصیت لازم آرہی ہو تو پھر مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص فرط محبت و عقیدت کے سبب کسی پیر،شیخ یا عالم کی تقلید و اطاعت کو کتاب و سنت کی اطاعت کی طرح منصوص سمجھے اور دل میں خوف کرے کہ اگر میں نے کسی پیر یا ولی کی کسی بات سے ذرہ برابر اختلاف کیا تو میرے ایمان کی خیر نہیں تو ایسی محبت و عقیدت شریعت میں نہ صرف یہ کہ غیر معتبر ہے بلکہ ایسے غالی معتقدین کو طرح طرح کی بے اعتدالیوں اورگمراہیوں میں مبتلا کر سکتی ہے،ایسی صورت میں حلال کو حرام یا حرام کو حلال کا درجہ دینے والوں کی اطاعت و فرمانبرداری کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہودونصاریٰ کے بارے میں جب یہ آیت نازل فرمائی:
[1] احمد،حاکم-صحیح الجامع:۷۵۲۰