کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 38
کی ذرہ برابر گنجائش نہیں،خواہ وہ اعمال و حرکات شرعی نقطہ نظر سے قبح و شناعت کی انتہاکو ہی کیوں نہ پہنچے ہوں۔ عصمت اولیاء: شیخ کی اندھی تقلید اور طاعت عمیاء کی عکاس یہ کہانیاں در اصل اہل تصوف کے اس نظریے اور عقیدے کا لازمی نتیجہ ہیں جس کی رو سے ہر صوفی شیخ گناہوں اور غلطیوں سے ’’ محفوظ‘‘ رہتا ہے جس طرح انبیاء و رسل معصوم ہوتے ہیں۔ پیروں اور ولیوں کے ہر قول و عمل کو بلا چوں وچرا تسلیم کرانے کے لیے انبیاء کی عصمت کے مقابلہ میں اولیاء کے گناہوں سے محفوظ رہنے کا یہ عقیدہ تراشا گیا ہے،اس کے ذریعے مریدوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان ولیوں کا ہر فعل اور قول بمنزلہ حکم شرعی کے ہوتا ہے جس میں کسی اعتراض یا سوال و جواب کی گنجائش نہیں ہوا کرتی،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کسی غلطی یا معصیت میں مبتلاہونے سے’’محفوظ‘‘ کررکھا ہے،انبیاء سے فرق پیدا کرنے کے لیے اولیاء کے لیے ’’معصوم ‘‘ کے بجائے ’’محفوظ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے ورنہ حقیقتاً وعملاً ان دونوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اس غلط خیال نے لوگوں کو ایک چکر میں پھنسا دیا ہے،جس شخص کو پیر یا ولی تسلیم کیا جاتاہے اس سے اگر کسی ایسی بات کا یا ایسے کام کا صدور ہو جو شرعاً جائز نہیں تو دو باتیں لازم آئیں گی:یا تووہ ’’ولی‘‘ نہ رہے یا یہ کہ وہ قول و فعل جائز تسلیم کیا جائے،غلو عقیدت نے عموماً دوسرے پہلو کو اختیار کیا ہے اور ایسے اقوال وافعال کی تاویلات کی انبار ہمارے سامنے ہے جس کی ایک ہلکی سی جھلک گذشتہ صفحات میں آچکی ہے۔ ’’حفاظت ‘‘ کے نام سے اولیاء کی عصمت کا عقیدہ جس معنی ومفہوم میں صوفیاء اور ان کے مریدوں کے درمیان معروف و مروج ہے وہ بے بنیاد ہے اور سراسر عقیدت اور غلوپر مبنی ہے۔ جن کو ’’بزرگان دین‘‘ کہا جاتا ہے ان کی اگر کوئی بزرگی ہے تو صرف اس وجہ سے