کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 36
شیخ کی محبت اور عقیدت میں مرید کا اپنی جان پر کھیل جانا بھی کوئی حیرت انگیز امر نہیں،ملاحظہ ہو درج ذیل حکایت: ’’شیخ احمد بن حواری ایک دفعہ اپنے پیر شیخ ابو سلیمان دارانی کی مجلس میں آئے اور عرض کیا:حضور!تنور گرم ہے،مزید کیا حکم ہے؟ شیخ نے کوئی جواب نہ دیا،شیخ احمد نے تین بار یہی سوال کیا،شیخ ابو سلیمان کو بار بار سوال کرنا ناگوار گزرا،فرمایا:جاؤ اسی میں بیٹھ جاؤ،تھوڑی دیر تک شیخ ابو سلیمان غافل رہے،اس کے بعد خیال آیا کہ میں نے احمد سے کیا کہا تھا،فرمایا:ذرا احمد کو دیکھوکہاں ہیں؟ لوگوں نے تلاش کیا،دیکھا وہ تنور کے اندر ہیں اور ان کا ایک بال بھی نہیں جلا ہے۔‘‘ [1] صوفیہ کے خلاف شرع اقوال و افعال پر نکیر کرنے والوں کو اپنے ’’تصرف خاص‘‘ سے یہ صوفیا اپنا ہم نوا بنا لیتے ہیں اور اعتراض کرنے والوں کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ اپنے اعتراض سے تائب و معذرت خواہ ہوتے ہیں اور اپنے قلب و لسان سے ان کے مؤید بن جاتے ہیں،چنانچہ مشہور صوفی مولانا عبدالرحمن جامی خراسانی کے بارے میں آیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے گھرکچھ مہمان آئے جن میں سیف الدین احمد اور مدرسین کی ایک جماعت بھی تھی،جامی صاحب نے ان کی ضیافت فرمائی،پھر غناء اور رقص کا اہتمام فرمایا،حاضرین میں سے کسی نے ٹوکا اور کہا کہ مولانا!یہ غناء و مزامیر اور رقص و سرور کیسے؟ کیا یہ خلا ف شرع نہیں؟ مولانا نے اس معترض کی طرف رخ کیا اور چپکے سے اس کے کان میں کچھ کہا،اس آدمی سے ایک عجیب قسم کی آواز نکلی،اور سماع اور طبلہ بازی سے وجد میں آکروہ بھی جھومنے لگا،پھر جب اس کی حالت معمول پر آئی تو اس نے شیخ سے معذرت ظاہر کی۔[2] اس سے زیادہ عجیب و غریب حکایت بھی پڑھیے: عبداللہ یافعی نے ’’نشر المحاسن الغالیۃ في فضل مشائخ الصوفیۃ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ:
[1] الرسالۃ القشیریۃ ، ص:۱۲۰-۱۲۱۔ [2] جامع کرامات الاولیاء :۲؍۶۱، بحوالہ دراسات فی التصوف، ص:۱۴۲۔