کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 35
’’ بایزید بسطامی کے پاس شقیق بلخی اور ابوتراب نخشبی آئے،کھانا پیش کیا گیا،انھوں نے بایزید کے ایک نوجوان خادم جو ان کا مریدبھی تھا،سے کہا:آؤ ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہوجاؤ،اس نے کہا کہ میں روزہ سے ہوں،شیخ ابو تراب نے کہا:کھالو،ایک ماہ کے روزوں کا ثواب ملے گا،اس نے دوبارہ معذرت کی تو شقیق بلخی نے اس سے کہا،ہمارے ساتھ کھانا کھالو ایک سال کے روزوں کا ثواب ملے گا،لیکن مرید نے روزہ نہیں توڑا،اور کھانے میں شریک نہیں ہوا،اس پر بایزید بسطامی نے ان دونوں سے کہا،چھوڑدو ایسے آدمی کوجو خدا کی نظروں سے گرگیا،ایک سال کا عرصہ گزرا ہوگا کہ وہ مرید چوری کے جرم میں پکڑا گیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ‘‘[1] ’’حضرت فرید الدین گنج شکر نے ایک دفعہ اپنے ایک مرید کو آواز دی جو نماز میں مشغول تھے،اس نے نماز توڑدی اور شیخ کا جواب دیا،شیخ نے کہا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا تناول فرما رہے تھے،ایک صحابی کو آواز دی وہ نماز میں مشغول تھا،اس نے جواب میں تاخیرکی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب خدا اور رسول بلائیں تو فوراً جواب دینا چاہیے‘‘[2] مولانا رومی اس سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ شیخ کی حضوری میں مرید کوبلا اجازت شیخ نماز پڑھنا بھی جائز نہیں ہے،خواہ کعبہ ہی میں کیوں نہ ہو،اس پر انھوں نے یہ حکایت بیان کی ہے: ’’ایک دفعہ حضرت بہاء الدین ولد(م۶۶۸ھ)معرفت کے بیان میں مصروف تھے،نماز کا وقت آیا،بعض مرید اٹھ کر نماز میں مشغول ہوگئے،اور بعض اسی طرح بیٹھے رہے،خدا نے لوگوں کو نگاہ بصیرت عطا کی اور انھوں نے دیکھ لیا کہ نماز پڑھنے والوں کا منھ قبلہ کی طرف سے پھرا ہوا ہے۔‘‘ [3]
[1] الرسالۃ القشیریۃ، ص:۱۹۷۔ [2] سیرۃ الاولیاء، ص:۳۴۷، بحوالہ: مطالعہ تصوف۔۔۔۔، ص:۹۵۔ [3] مناقب العارفین، ص:۱۱۴، بحوالہ: مطالعہ تصوف۔۔۔۔۔۔، ص:۹۵۔