کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 26
ہیں:’’مسلوب الارادۃ‘‘ کہ جو پیر کہے وہی مان لے،اپنی طرف سے ارادہ ہی نہ کرے‘‘[1]
اسکندری نے اپنے شیخ ابو العباس مرسی جو ابو الحسن شاذلی کے خلیفہ اور شاگرد ہیں سے نقل کیا ہے کہ شیخ ابو العباس فرماتے ہیں کہ مجھ سے عبدالقادر نقادولی نے فرمایا کہ میں آج کی رات شیخ ابو الحسن کے مقام پر مطلع ہوا،میں نے ان سے پوچھا کہ شیخ کا مقام کہاں ہے؟ انہوں نے فرمایا عرش کے پاس،میں نے ان سے کہا کہ وہ جگہ تو ایسی تھی کہ شیخ آپ کی خاطر وہاں اترکر آئے تھے اور آپ نے ان کا دیدار کیا تھا،ورنہ شیخ کا مقام تو اس سے بھی اوپر ہے۔[2]
اسکندری ہی نے ابو العباس مرسی سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ:
’’اگر ولی کی حقیقت آشکارا کردی جائے تو اس کی عبادت کی جائے گی کیوں کہ ولی کے اوصاف وخصائص اللہ کے اوصاف وخصائص میں سے ہیں‘‘[3]
اور اس ہذیان کو بھی سنتے چلیے:
’’ابوتراب نخشبی نے ایک روز اپنے دوست سے کہا کہ کاش کہ تم ابو یزید بسطامی(مشہور صوفی)کو دیکھتے،اس نے کہا کہ میں ان سے بے نیاز ہوں،میں نے تو اللہ کا دیدار کیا ہے اور اس نے مجھے ابو یزید سے بے نیاز کردیا ہے،اس پر ابو تراب نے کہا:بربادی ہو تمہارے لیے،اللہ عزوجل پرفخر کرتے ہو؟ اگر ابویزید کو ایک مرتبہ بھی دیکھ لیتے تو یہ تمہارے لیے اللہ کو ستر بار دیکھنے سے زیادہ نفع بخش ہوتا‘‘[4]
اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں:
’’قلت:وھذا فوق الجنون بدرجات ‘‘[5] میں کہتا ہوں کہ یہ دیوانگی کی حد سے کئی درجہ آگے بڑھی ہوئی بات ہے۔
[1] تذکرۃ الرشید: ۲؍۹۷۔
[2] لطائف المنن، ص:۱۴۳-۱۴۴، بحوالہ: دراسات فی التصوف، ص:۲۴۱۔
[3] لطائف المنن، ص:۹۵، بحوالہ:دراسات فی التصوف، ص:۲۴۳۔
[4] احیاء علوم الدین:۴؍۳۵۶۔
[5] تلبیس ابلیس، ص:۳۵۴۔