کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 24
مرید کے لیے پیر کی اطاعت اپنے رب کی اطاعت سے بڑھ کر ہے۔ ایک دوسرے صوفی کا قول ہے کہ: ’’الشیخ للمرید في درجۃ لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه‘‘[1] مرید کے لیے شیخ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے درجے میں ہے۔ شیخ کردی لکھتے ہیں: ’’شیخ مقصود ومطلوب ہے،شیخ کی حیثیت کعبہ جیسی ہے،کہ لوگ کعبہ کی طرف رخ کرکے سجدہ کرتے ہیں حالانکہ سجدہ اللہ کے لیے ہوتا ہے،ایسے ہی شیخ بھی ہیں۔‘‘ [2] شعرانی شیخ کو کعبہ سے بھی زیادہ محترم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’کسی مرید کے لیے مناسب نہیں کہ کبھی بھی اپنے شیخ سے کوئی استفسار کرے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لے،اور ایسے موقع پر حد درجہ حیاء و شرمندگی کا احساس اس کواس طرح دامن گیر ہونا چاہیے گویاوہ انگارہ پر چل رہا ہے،’’ فإن شیخہ اعظم حرمۃ من الکعبۃ‘‘ کیوں کہ اس کا شیخ خانہ کعبہ سے بھی زیادہ قابل احترام ہے ‘‘[3] جب شیخ کعبہ سے بھی زیادہ قابل احترام ہے تو اس کے بعد کا مرحلہ امام غزالی کے یہاں ملاحظہ کیجیے: ’’کتنے اولیاء اللہ ایسے ہیں کہ خانہ کعبہ ان کی زیارت کو آتا ہے اور ان کا طواف کرتا ہے۔‘‘ [4] اور اب شان الوہیت میں گستاخی اور جرأت و جسارت پر مشتمل چند صوفیانہ ہدایات و واقعات بھی ملاحظہ فرمائیں: سہروردی عوارف المعارف میں لکھتے ہیں:
[1] الابریز، بحوالہ: الفکر الصوفی، ص:۵۳۳۔ [2] المواہب السرمدیۃ، ص:۳۱۳، الانوار القدسیۃ ، ص:۵۲۵، بحوالہ: النقشبندیۃ، ص:۹۱۔ [3] الانوار القدسیۃ للشعرانی: ۲؍۵۴، بحوالہ: دراسات فی التصوف، ص:۱۰۴۔ [4] احیاء علوم الدین: ۱؍۲۶۹۔