کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 22
نہیں،اسلام تو بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کراکے آقائے واحد کا بندہ وغلام بنانے کے لیے آیا ہے،یہی اس کی روح ہے اور اسی بنیاد پر پورے اسلام کی عمارت قائم ہے۔ ایسی صورت میں کسی شیخ یا پیر کو اللہ اور بندے کے درمیان واسطہ بنانا،اور پھر اس واسطے میں بھی وحدانیت و انفرادیت کی شرط لگانا،واسطے کے تعدد کو شرک باللہ قرار دینا یا ارتداد سے تعبیر کرنا،توحید الوہیت،ربوبیت،اسماء و صفات کے مقابل توحید مطلب کی اصطلاح وضع کرنا،پیرو ں اور مرشدوں کے لیے اللہ کی صفات و خصوصیات جیسی صفات و خصوصیات ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ،یہ تمام باتیں اسلامی توحید سے محاذ آرائی نہیں تو پھر کیا ہیں۔ مشرکین اللہ کی محبت کی طرح اپنے بتوں سے محبت کرتے تھے تو اللہ نے اس پر نکیر فرمائی﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّٰهِ أَندَاداً یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللّٰهِ﴾[1] ’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے‘‘ ادھر معاملہ یہ ہے کہ پیر و مرشد کی محبت میں کسی اور کو شریک کرنا شرک باللہ بتلایا جارہا ہے۔ ’’الحبُّ فی اللّٰه والبُغضُ فی اللّٰه‘‘ یعنی اللہ واسطے دوستی اور اللہ واسطے دشمنی کے اسلامی اصول کے شانہ بشانہ ’’الحب من اجل الشیخ والبغض من اجل الشیخ‘‘ کا اصول،اور ارشاد ربانی﴿وَمَا بِکُم مِّن نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰه﴾[2](جو کچھ تمہارے پاس نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے)کے برعکس ’’ہر نعمت کو شیخ کی طرف سے آئی ہوئی ‘‘قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے۔شرک اور توحید،ساجھے داری اور یکتائی کے درمیان پھر فرق کس چیز کا ہے،قیامت کے دن غیر اللہ کی عبادت کرنے والے اپنے معبودان باطل سمیت جب واصل جہنم ہوں گے تو وہیں جھگڑنا شروع کردیں گے۔﴿قَالُوا وَہُمْ فِیْہَا یَخْتَصِمُونَ۔تَاللّٰهِ إِن کُنَّا لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔إِذْ نُسَوِّیْکُم بِرَبِّ الْعَالَمِیْن﴾[3]
[1] سورہ بقرہ آیت نمبر:۱۶۵۔ [2] سورہ نحل، آیت نمبر: ۵۳۔ [3] سورہ شعراء، آیت نمبر :۹۶-۹۸۔