کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 21
اللہ اور بندے کے درمیان عبادات میں کوئی واسطہ ماننا ادیان باطلہ اور ملل کافرہ کے بنیادی عقائد میں سے ہے،اگر چہ اس کی شکل ان ادیان وملل کے یہاں مختلف ہے،مثال کے طورپر عیسائیوں کا یہ عقیدہ اور عمل ہے کہ توبہ کرنے والا اپنے مذہبی پیشوا کے پاس جاکر اس کے سامنے اپنی غلطیوں اور گناہوں کا اعتراف کرتا ہے اور اپنے توبہ کا اعلان کرتا ہے تو وہ پادری اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کو مبارکباد دیتا ہے،پھر نذرانے کے طور پر وہ تائب شخص اس پادری کی خدمت میں کچھ رقم بھی پیش کرتا ہے۔حالانکہ ہم سے اللہ رب العزت نے بڑے واضح انداز میں فرمادیا ہے:﴿وَمَن یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّٰه﴾[1] ’’ اللہ کے سوا کون گناہوں کو معاف کرسکتا ہے‘‘ یہاں تک کہ اپنے نبی کو بھی گناہ بخشنے کا حق نہیں دیا ہے۔فرمایا: ﴿مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِم مِّن شَیْء ٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِم مِّن شَیْء ٍ﴾[2] ’’ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں‘‘ خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ ماننے کا عقیدہ شیعوں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے،ان کے بنیادی عقائد میں امامت کا عقیدہ سب سے اہم ہے،ان کے یہاں مخصوص ائمہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ معصوم عن الخطا ہوتے ہیں اور ان کا ہر عمل شرعی حکم کی حیثیت رکھتا ہے،اور یہ کہ اللہ سے تعلق ان ائمہ کی وساطت کے بغیر نہیں ہوسکتا،اسی لیے انہیں مبالغہ آمیز ناموں سے یاد کرتے ہیں،مثلاً ولی اللہ،باب اللہ،معصوم اور حجۃ اللہ وغیرہ۔[3] شریعت اسلامیہ کے مزاج سے واقف اور کتاب وسنت کی نصوص سے باخبر ہر شخص اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ مذکورہ عقائد کی اسلام کے اندر کوئی گنجائش
[1] سورہ آل عمران، آیت نمبر:۱۳۵۔ [2] سورہ انعام ، آیت نمبر:۵۲۔ [3] ملاحظہ ہو الخطوط العریضۃ ، ص؛۵۱-۵۲۔