کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 20
کرنے سے دین کی شناخت جاتی رہتی ہے،یکتائی،وحدانیت اور انفرادیت اللہ جل شانہ کے خصائص ہیں،وہی تنہا معبود ہے اور وہی خالق و رازق اور ہادی و مرشد ہے،وہی واحد و احد اور غنی و صمد ہے،ساری مخلوق اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں،عبادت کی جملہ قسموں کا وہی اکیلا مستحق و سزاوار ہے،ان صفات سے کسی مخلوق کو موصوف کرنا خواہ وہ نبی ہو یا مقرب فرشتہ،عالم ہو یا عامل،اس کے غیظ و غضب کو دعوت دینا ہے،کسی مخلوق کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ صرف اور صرف وہی مجھے ہدایت دے سکتا ہے،اگر کسی اور مصدر سے میں ہدایت کا طالب ہوں گاتو مرتکب شرک ہوں گا،یہ عقیدہ بذات خود شرکیہ عقیدہ ہے،اللہ اور اس کے رسول نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ شرک اور کفر کے چور دروازوں کو بھی بند کردینے کی ہدایت کی ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں کے بیچ کسی کو واسطہ اور وسیلہ بنانا یا سوچنا اور یہ تصور کرنا کہ اس کے بغیر خدا تک میری رسائی ناممکن ہے یہی عین شرک ہے جس میں مشرکین مبتلا تھے،وہ اللہ تعالیٰ کو خالق ورازق اور مربی ومتصرف مانتے تھے مگر اس کی عبادت میں غیروں کو بھی شریک کردیتے تھے،اور اس کی توجیہ یہی کرتے تھے کہ﴿مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللّٰهِ زُلْفَی﴾[1] ’’ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ(بزرگ)اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں‘‘ اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمادیا ہے کہ: ﴿وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ﴾[2] ’’ اے نبی!جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں،ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں،اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں،یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے‘‘
[1] سورہ زمر، آیت نمبر:۳۔ [2] سورہ بقرہ ، آیت نمبر: ۱۸۶۔