کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 14
استغفار میں باطنی مضرت سے تو محفوظ ہو گیا اب خواہ وہ کمال سابق عائد ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن چونکہ شیخ کے قلوب کو اس سے صدمہ پہنچا تھا اور اس کے قلب میں تصرف کی قوت بھی موجود تھی اس کے اثر سے شاہزادہ مرگیا کہ صاحب تصرف اگر اس کا قصد بھی نہ کرے مگر اس کو صدمہ ہونا اس دنیوی ضرر کا سبب ہوجاتا ہے کیوں کہ ناگواری میں ایک گونہ توجہ اس شخص کے اضرار کی طرف طبعاً ہوجاتی ہے اور اس سے یہ اثر ہوسکتا ہے۔‘‘ [1]
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی استاد یا شیخ کی شاگردی اور صحبت نفع بخش ہوتی ہے،صلحاء کی صحبت اختیار کرنے اور اشرار سے دور رہنے کی شریعت میں بھی تاکید کی گئی ہے،لیکن یہ تصور کہ ہدایت ورہنمائی کا واحد ذریعہ شیخ یا پیر ہی ہے،اس سے الگ ہٹنا شیطان کی شاگردی اختیار کرنا ہے یہ چیز بہر حال محل نظر ہے،ہدایت وضلالت کسی پیر ومرشد کی جاگیر نہیں بلکہ یہ تو عطیہ خداوندی ہے،اس کے حصول کی راہ کو اس درجہ تنگ کردینا بڑی ناانصافی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں علماء،فقہاء،محدثین اور ائمہ دین اپنے وقت میں زہد وتقویٰ کے اعلیٰ مرتبے پر فائز رہے حالانکہ انھوں نے نہ کسی شیخ طریقت کی مروجہ اصطلاحی مریدی اختیار کی تھی اور نہ کسی سے بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔
خود صوفیہ ہی کا ایک طبقہ اس من گھڑت کلیہ سے غیر مطمئن نظر آتا ہے اور کتاب وسنت اور سیرت صحابہ کو رشد وہدایت کا منبع بتاتا ہے۔
قشیری صاحب اپنے رسالہ میں شیخ ابوبکر طمستانی(متوفی ۳۴۱ھ)کا یہ ہدایت نامہ نقل کرتے ہیں:
’’راستہ واضح ہے اور کتاب وسنت ہمارے درمیان قائم ہیں،اور صحابہ کی فضیلت معلوم ہے،ہجرت اور صحبت رسول کی وجہ سے،تو اب ہم میں جو شخص کتاب وسنت کے ساتھ صحبت اختیار کرے،اپنے نفس اور مخلوق کو خوش کرنے سے الگ ہوجائے اور خلوص دل سے اللہ کی طرف ہجرت کرے تو وہی سچا ہے اور صحیح راستہ پر پہنچا ہوا ہے۔‘‘ [2]
[1] بوادر النوادر:۲؍۴۲۱۔
[2] الرسالۃ القشیریۃ، ص:۳۷۔