کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 13
اس کو متعین کیا ہے اور شیخ ہی کے ذریعہ سے خدا تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے ‘‘[1]
اسی پر بس نہیں اگر کوئی شخص پیری مریدی کو غیر ضروری تصور کر سکتا ہے اور کسی شیخ طریقت سے بیعت کیے بغیر تقرب الی اللہ کی کوشش کرتا ہے تو ایسے شخص کو عتاب و عقاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ چار وناچار اپنے آپ کو اس طبقہ سے جوڑ لیتا ہے،درج ذیل واقعہ ملاحظہ ہو:
’’مکہ مکرمہ میں ایک بزرگ فرمانے لگے کہ مرید ہونے اور مشائخ کی خدمت کی کیا ضرورت ہے،کتابوں میں ذکر اذکار اشغال لکھے ہیں دیکھ کر اس پر عمل کرلیں گے،تصوف حاصل ہو جائے گا،حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ زندہ تھے،انھوں نے یہ بات سنی،کسی وقت میں حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی طرف ایک نظر دیکھا وہ غش کھا کر گر گئے،جب افاقہ ہوا حضرت موصوف نے فرمایا کہ جناب من یہی ایک بات ہے جو کتابوں میں نہیں ملتی ہے،سچ ہے ؎
آنانکہ خاک رابنظر کیمیا کنند آیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند
اس کے بعد وہ بزرگ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوگئے‘‘[2]
ایسے ہی کسی شخص سے مربوط ہونے کے بعد بھی مرید یہ تصور کرنے کا مجاز نہیں کہ اب مجھے شیخ سے استغناء ہوگیا اور اس کی صحبت کی ضرورت نہ رہی،اگر اس طرح کا کوئی خیال دل میں آتا ہے تو اس کے لیے زبردست خسارے کا سبب بنتا ہے۔
بوادر النوادر میں تینتالیسویں نادرہ کا عنوان لکھ کر مؤلف فرماتے ہیں:
’’حاصل مضمون اس سرخی کا یہ حکایت ہے کہ اس شاہزادہ کو شاہ چین سے فیوض و برکات حاصل ہوئے مگر اس کو گمان ہو گیا کہ میں جب کامل ہو گیا مجھ کو شیخ کی اور اس کی خدمت کی کیا ضرورت رہی۔اس کا یہ وبال ہوا کہ وہ برکات سب مسلوب ہو گئے اور متنبہ ہو کر استغفار کیا اور اس کے بعد ایک سرخی اس قصہ کی اور آوے گی اس میں اس کا تتمہ ہے کہ
[1] ضیاء القلوب، ص:۵۹۔
[2] ماہنامہ الرشاد، سہارنپور، بابت ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ، ص:۱۹۔