کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 123
’’تصور شیخ کا مسئلہ فن تصوف میں ایک دقیق مسئلہ ہے اورصدیوں سے باطنی علوم کے ماہرین اس میں مختلف الرائے رہے ہیں ‘‘ اس کے بعد ادروی صاحب نے مولانا مدنی کے رسالہ مذکورہ سے ایک اقتباس نقل کیاہے جس میں مولانا نے تصور شیخ کے مقاصد،اہمیت اورفوائد کا تذکرہ کیا ہے لیکن آخر میں مولانا لکھتے ہیں: ’’مگر چونکہ متاخرین غلط کاروں نے اس میں محظورات اورناجائز اشیاء داخل کردیں،مثلاً شیخ کے ہر جگہ حاضروناظر ہونے کا اعتقاد کرنا اوراس کے تصور اورتوجہ الی الشیخ میں اس قدرمنہمک ہوجانا کہ مقصود حقیقی اورمحبوب حقیقی سے مستغنی اورغافل ہوجائے یا شیخ کو مثل کعبہ ہر نماز میں قبلہ اورمتوجہ الیہ بنالینا یا باطن مرید میں شیخ کو متصرف سمجھنے لگنا یااس کی صورت اورشیخ کی حد سے زیادہ تعظیم کرنے لگنا،اس سے ناعاقبت اندیشوں اوراحمقوں کا صورت پرستی حقیقی اختیار کرنا جیسے مختلف مبتدع پیروں کے یہاں رائج ہوگیا ہے،اسی لیے سمجھ دار اکابر پر لازم ہوگیا کہ اس پر نکیر فرمائیں اورذریعہ شرک وکفر کو جڑسے اکھاڑ کرپھینک دیں۔بہر حال یہ امر نہ مطلقاً ممنوع ہے اورنہ مطلقاً ضروری،فتوی دینے اورعمل کرنے میں غور وفکر اورسوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔واللہ اعلم‘‘[1] یہ تمام اعترافات ان ہستیوں کے ہیں جنہیں تصوف وسلوک سے عقیدۃً وعملاً محبت اورقربت تھی۔اس لیے ان خیالات کو یہ کہہ کر نہیں ٹالاجاسکتا کہ یہ مخالفین اورمانعین کی ذہنی اختراع اورمبنی برعداوت پر وپیگنڈہ ہیں۔ہم نے بالقصد ان اساطین علم وفضل کے اقوال وتاثرات یہاں مندرج کرنے سے اجتناب کیا ہے جنہیں عام طور سے تصوف مخالف شمارکیا جاتا ہے اور ان کے افکار وخیالات کو شکوک وشبہات کے دائرے میں رکھ چھوڑا جاتا ہے۔ عقل وانصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان تمام معروضات وحقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہر قسم کی مصلحت،عصبیت اورہوائے نفس سے بالا ہوکر ہم اپنے عقائد واعمال کو شریعت کی
[1] مآثر شیخ الاسلام ، ص:۴۳۸-۴۳۹۔