کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 121
’’رابطہ ‘‘ خاص ایک شغل کا نام ہے جس میں شیخ کی صورت ذہن میں حاضر کرکے نظر قلب سے اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر اورخیال کو سادھ کر دیکھا جاتا ہے،یہ فرض کیا جائے کہ شیخ حاضر وناظر ہے،لیکن یہ صرف تصور کے درجہ میں ہو نہ کہ اعتقاد کے،کیونکہ یہ شرک ہے۔اسی لیے عوام کو اس سے روکاجاتا ہے اوریہی مقصد ہے اکابرین کی ان عبارات کا جن میں تصور شیخ کو﴿مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْ أَنتُمْ لَہَا عَاکِفُون﴾کے عموم میں[1] داخل کیا ہے(جس کی روسے حرمت ثابت ہوتی ہے)۔‘‘ [2]
ایک دوسری جگہ تصور شیخ کے فوائد ومقاصد بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’بہرحال اس میں جو کچھ حکمت اورفائدہ ہو،راقم(حضرت مجددتھانوی)کا تجربہ ہے کہ یہ شغل خواص کو تومفید ہوتا ہے اورعوام کو سخت مضر کہ صورت پرستی کی نوبت آجاتی ہے،اسی واسطے حضرت امام غزالی وغیرہ محققین نے عوام اوراغبیاء کے لیے ایسے ایسے اشغال کی تعلیم سے منع فرمایا ہے جس سے کشف وغیرہ ہوتا ہے۔اس لیے عوام کو توبالکل اس سے بچانا چاہیے اورخواص بھی اگر کریں تواحتیاط کی حدتک محدود رکھیں۔اس کو حاضر ناظر اورہروقت اپنا معین ودستگیر نہ سمجھ لیں،کیونکہ کثرت تصور سے کبھی صورت مثالیہ روبروحاضر ہوجاتی ہے،کبھی تووہ محض خیال ہوتا ہے اورکبھی کوئی لطیفہ غیبی اس شکل میں متمثل ہوجاتا ہے اورشیخ کو اکثر اوقات خبرتک بھی نہیں ہوتی،اس مقام پر اکثر ناواقف کو لغزش ہوجاتی ہے۔
(لہذا)مجھ کو اس(تصور شیخ)سے سخت انقباض ہے،اس طرح انہماک کے ساتھ کسی مخلوق کی طرف توجہ کرنا توحید کے خلاف ہے،اس سے غیرت آتی ہے کہ غیر کی صورت ایسے طریق پر ذہن میں جمالیں جو حق تعالیٰ کے لیے زیباتھا ‘‘[3]
ایک مقام پر مزید لکھتے ہیں:
’’…پھر جب تصور شیخ بضرورت دفع وساوس وخطرات توبقاعدہ مسلمہ:’’الضروري
[1] حضرت شاہ اسماعیل دہلوی مراد ہیں جیسا کہ ان کا بیان صفحہ ۱۱۸-۱۲۰؍پر گذرا ہے۔
[2] شریعت وطریقت، ص:۳۵۷-۳۵۸۔
[3] شریعت وطریقت، ص: ۲۶۸۔