کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 12
کرکے کہتے ہیں:’’اگر میرے ہاتھوں تم نے فلاح نہ پائی تو جان لو کہ پھر تمہارے نصیب میں کبھی بھی فلاح نہیں ہوگی۔‘‘ [1]
شیخ ہجویری پیر کی رفاقت کو فرض قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’صوفیائے کرام کے مشائخ پہلے ایک دوسرے سے صحبت کا حق طلب کرتے ہیں اور مریدوں کو اس پر حرص دلاتے ہیں یہاں تک کہ صحبت ان پر فرض ہوجاتی ہے۔‘‘ [2]
امام غزالی لکھتے ہیں:
’’ایسے ہی مرید ایک شیخ اور استاذ کا محتاج ہوتا ہے جس کی بہر حال اقتدا کرے،تاکہ وہ اس کو سیدھے راستے کی طرف لے چلے،کیوں کہ دین کا راستہ بڑا غامض ہے اور شیطان کے راستے زیادہ اور واضح ہیں،پس جس کی ہنمائی کرنے والا کوئی شیخ نہ ہوگا اسے شیطان لا محالہ اپنے راستوں کی طرف کھینچے گا،پس ایک مرید شیخ کو ویسے ہی لازم پکڑے جیسے کہ اندھا کسی دریا کے کنارے اپنے قائد کو پکڑے رہتا ہے۔‘‘ [3]
ذکر کے آداب بیان کرتے ہوئے ایک صوفی لکھتے ہیں:
’’ذکر کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرید کی توجہ اپنے شیخ کی طرف ہو،اسی سے وہ استمداد کرے،اور یہ یقین رکھے کہ بلا شیخ کے واسطے کے توجہ الی اللہ پر اسے قدرت نہیں۔‘‘ [4]
’’ضیاء القلوب‘‘ میں خلوت کی شرطیں بیان کرتے ہوئے حاجی امداد اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ ساتویں۔دل کا شیخ سے ہمیشہ ربط رکھنا اس خیال سے کہ اس سے مدد حاصل کرے اور اس اعتقاد سے کہ شیخ خدا مظہر ہے،خدا نے فیض پہنچانے کے لیے میرے اوپر
[1] الفتح الربانی، ص:۳۷۱بحوالہ الکشف عن حقیقۃ الصوفیۃ، ص:۶۰۹۔
[2] کشف المحجوب، ص:۴۷۱۔
[3] احیاء علوم الدین: ۳/۶۵۔
[4] المواہب السرمدیۃ، ص:۱۷۰، الانوار القدسیۃ، ص:۱۶۷، بحوالہ: النقشبندیۃ: عرض وتحلیل، ص:۹۲۔