کتاب: تصوف میں شیخ اور تصور شیخ - صفحہ 11
پیری مریدی کی ضرورت
راہ سلوک کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ پہلے کسی شیخ طریقت کو اپنا رہبر اور قائد تسلیم کرکے مروجہ طور پر اس سے بیعت کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ کسی پیر کی مریدی اختیار کیے بغیر اللہ رب العزت تک ہماری رسائی ناممکن ہے اس سلسلے میں ارباب تصوف کے ارشادات ملاحظہ ہوں:
امام قشیری فرماتے ہیں:
’’پھر مرید پر واجب ہے کہ ایک شیخ سے تربیت حاصل کرے،اگر اس کا کوئی شیخ ومرشد نہیں تو شیطان ہی اس کا راہنما ہوگا۔‘‘ [1]
شیخ کردی لکھتے ہیں:
’’شیخ کا حصول بعینہٖ اللہ تعالیٰ کا حصول ہے،کیونکہ قاعدہ ہے کہ ’’الرفیق ثم الطریق‘‘ اور جس کا کوئی شیخ نہ ہوگا شیطان اس کا شیخ ہوگا۔‘‘ [2]
ایک دوسرے بزرگ کا فرمان ہے:
’’جس نے بلا کسی شیخ کے اللہ کا ذکر کیا اسے نہ تو اللہ ہی حاصل ہوگا نہ اس کا نبی نہ شیخ۔‘‘ [3]
شیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں منقول ہے کہ اپنے ایک شاگرد کو مخاطب
[1] الرسالۃ القشیریۃ، ص:۲۳۸۔صوفیہ کا یہ اصول اکثر کے نزدیک حدیث رسول کی طرح مانا جاتا ہے جسے مختلف الفاظ سے ذکر کیا جاتا ہے مثلاً: من لیس لہ شیخ فشیخہ ابلیس،/ من لم یکن لہ استاذ فإمامہ الشیطان/ من لا شیخ لہ فشیخہ الشیطان، وغیرہ۔
[2] المواہب السرمدیۃ، ص:۳۱۳، الانوار القدسیہ ، ص: ۵۲۵، بحوالہ: النقشبندیۃ: عرض وتحلیل، ص:۹۱، ’’الرفیق ثم الطریق‘‘ کو بھی بیشتر صوفیہ حدیث رسول کے طور پرپیش کرتے ہیں۔
[3] قلادۃ الجواہر، ص:۱۷۷، بحوالہ الکشف عن حقیقۃ الصوفیۃ، ص:۶۰۵۔