کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 87
شروع کر دی۔ جب ان شکایتی عرضیوں کا شمار حد سے متجاوز ہونے لگا اور یہ شکایتیں بھی آنے لگیں کہ علی بن عیسیٰ نہ صرف ظلم و تشدد میں حد سے گزر گیا ہے بلکہ وہ تخت خلافت کے الٹ دینے کی تدابیر میں مصروف ہے تو ہارون نے مجبوراً خود بغداد سے کوچ کیا اور مقام رے میں پہنچ کر قیام کیا، علی بن عیسیٰ خلیفہ کے آنے کا حال سن کر مع تحائف و ہدایا مرو سے چل کر رے میں آیا اور خلیفہ ہارون الرشید کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی فرماں برداری اور اخلاص کا ثبوت پیش کیا۔ ہارون نے خوش ہو کر اس کو خراسان کی گورنری پر مامور رکھا اور رے و طبرستان و نہاوند و قومس دہمدان کی ولایتوں کو بھی اس کی حکومت میں شامل کر دیا۔
موتمن کی ولی عہدی:
اسی سال یعنی ۱۸۶ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے تیسرے بیٹے قاسم کو بھی ولی عہد بنایا یعنی لوگوں سے اس بات کی بیعت لی کہ مامون کے بعد قاسم تخت خلافت کا مالک ہو گا۔ اسی موقع پر قاسم کو موتمن کا خطاب دیا، لیکن موتمن کو ولی عہد سوم بناتے ہوئے بیعت میں یہ شرط رکھ دی کہ اگر موتمن لائق ہو تو مامون کا جانشین بنے گا، ورنہ مامون کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اس کو معزول کر کے کسی دوسرے کو اپنا ولی عہد بنائے۔ ولی عہد اول یعنی امین کو عراق، شام اور عرب کے ملکوں کی حکومت سپرد کی۔ مامون کو ممالک مشرقیہ دے دیے تھے۔ موتمن کو جزیرہ، ثغور اور عواصم کے صوبوں کی حکومت عطا کی۔ پھر امین سے ایک عہد نامہ لکھوایا جس کا مضمون یہ تھا کہ’’میں مامون کے ساتھ ایفائے عہد کروں گا۔ اسی طرح مامون سے ایک عہد نامہ لکھوایا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں امین کے ساتھ وعدہ وفا کروں گا۔ ان عہد ناموں پر اکابر علماء، مشاہیر، مشائخ، سردارن لشکر، اراکین سلطنت، بزرگان مدینہ اور بزرگان مکہ کے دستخط کرا کر خانۂ کعبہ میں آویزاں کرا دیا۔ جو جو ملک جس جس بیٹے کو دیا تھا اسی پر ان کو قناعت کرنے اور کسی دوسرے بھائی کا ملک نہ لینے کا بھی اقرار لیا گیا تھا۔ صرف خلافت میں ترتیب رکھی تھی۔ یعنی اول امین خلیفۃ المسلمین ہو گا اور مامون اس کی فرماں برداری کا اقرار کرے گا، لیکن امین کو یہ حق حاصل نہ ہو گا کہ وہ مامون کو ان ملکوں کی حکومت سے معزول کر سکے جن کو ہارون نے مامون کی حکومت کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ امین کے بعد مامون خلیفہ ہو گا وغیرہ۔
یہ سب کچھ اسی عہد نامہ میں تصریح تھی جس پر امین و مامون وغیرہ سب کے دستخط و اقرار تھے اور جو خانۂ کعبہ میں آویزاں کیا گیا تھا۔ اس طرح ہارون الرشید نے اپنی سلطنت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کر کے آئندہ کے لیے ان میں لڑائی جھگڑے پیدا ہونے کا امکان مٹانا چاہا تھا، لیکن یہ ہارون الرشید کی کوئی