کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 86
یہ کہ ایک لاکھ سالانہ لوں گا بلکہ چار لاکھ سالانہ خراج خزانہ خلافت میں بھجواتا رہوں گا۔ ہارون الرشید نے اس معاملہ میں مشیروں سے مشورہ کیا تو ہرثمہ بن اعین نے رائے دی کہ ابراہیم بن اغلب کو افریقیہ کی گورنری دینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ چنانچہ ہارون الرشید نے محرم ۱۸۴ھ میں ابراہیم کے پاس سند گورنری بھیج دی۔ ابراہیم نے افریقیہ پہنچتے ہی وہاں کے تمام باغی سرداروں کو جن سے ابراہیم خوب واقف تھا چن چن کر گرفتار کیا اور بغداد بھیج دیا۔ جس سے تمام شورش یکایک فرو ہو گئی۔ اس کے بعد ابراہیم بن اغلب نے قیروان کے پاس ایک شہر آباد کیا اور اس کا نام عباسیہ رکھا۔ اسی عباسیہ کو اس نے دارالحکومت بنایا۔ اس کے بعد اس کی نسل میں عرصہ دراز تک یہاں کی مستقل حکومت رہی جس کا حال آئندہ بیان ہو گا۔ اسی سال یعنی ۱۸۴ھ میں ہارون الرشید نے یمن اور مکہ کی حکومت حماد بربری کو عطا کی اور سندھ کی حکومت پر داؤد بن یزید بن حاتم کو روانہ کیا۔ قہقستان کی حکومت یحییٰ حریشی کو اور طبرستان کی حکومت مہرویہ رازی کو دی۔ ۱۸۵ھ میں اہل طبرستان نے یورش کر کے مہرویہ کو مار ڈالا تب بجائے اس کے عبداللہ بن سعید حریشی مامور کیا گیا۔ اسی سال یزید بن مزید شیبانی نے جو آذربائیجان و آرمینیا کا گورنر تھا وفات پائی۔ بجائے اس کے اس کا بیٹا اسد بن یزید مامور کیا گیا۔ ۱۸۶ھ میں جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے علی بن عیسیٰ خراسان کی تمام بغاوتوں پر غالب آکر وہاں امن و سکون قائم کر سکا اور وہب بن عبداللہ نسائی مارا گیا۔ علی بن عیسیٰ کو زیادہ دنوں چین سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ خراسان میں اس کے خلاف ایک اور طوفان برپا ہو گیا۔ اہل خراسان نے علی بن عیسیٰ کی شکایت میں مسلسل دربار خلافت میں عرضیاں بھیجنی شروع کیں ۔ یحییٰ بن خالد علی بن عیسیٰ کی گورنری خراسان سے خوش نہ تھا۔ چنانچہ یحییٰ کے دونوں چھوٹے بیٹوں موسیٰ و محمد نے جن کو اہل خراسان میں کافی رسوخ حاصل تھا، وہب بن عبداللہ اور حمزہ خارجی کو بغاوت پر اکسا دیا تھا، اور انہی کی درپردہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ خراسان میں مسلسل کئی برس تک بد امنی و فساد کا بازار گرم رہا۔ اس عرصہ میں خلیفہ ہارون الرشید کو یحییٰ و جعفر کی طرف سے کئی مرتبہ توجہ دلائی گئی کہ علی بن عیسیٰ کو خراسان سے معزول کر دیا جائے، مگر ہارون الرشید نے کوئی التفات نہیں کیا۔ اب جب کہ تیر و شمشیر کے ہنگامے خراسان میں فرو ہو گئے تو کاغذ کے گھوڑے دوڑنے شروع ہوئے۔ یعنی برمکیوں کی تحریک کا نتیجہ تھا کہ خراسانیوں نے علی بن عیسیٰ کی شکایتوں میں عرضی پر عرضی بھیجنا