کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 80
چنانچہ وہ رقم اس کے پاس بھجوا دی گئی۔
یحییٰ اور فضل جب بغداد میں پہنچے تو ہارون الرشید نے نہایت عزت اور تپاک کے ساتھ یحییٰ بن عبداللہ سے ملاقات کی، جاگیر مقرر کی، انعامات دیے، اور اس کام کے صلہ میں فضل بن یحییٰ کے مرتبہ میں بھی اضافہ کیا گیا اور یحییٰ بن عبداللہ کو فضل بن یحییٰ کے سپرد کیا گیا کہ تم ہی ان کو اپنے پاس رکھو۔ چنانچہ یحییٰ بن عبداللہ آرام سے فضل بن یحییٰ کی نگرانی میں زندگی بسر کرنے لگے اور بغداد میں رہنے لگے۔
۱۷۶ھ میں ہارون الرشید کے پاس خبر پہنچی کہ مصر کا گورنر موسیٰ بن عیسیٰ دعوت علویہ سے متاثر ہے اور وہ انقلاب خلافت کی تدابیر میں مصروف ہے۔ ہارون الرشید نے ملک مصر کی گورنری کا انتظام جعفر بن یحییٰ برمکی کے سپرد کیا۔ جعفر نے عمر بن مہران کو جس کی کنیت ابو حفص تھی، مصر کی گورنری کے لیے تجویز کیا۔ اس نے اس شرط پر مصر کی گورنری منظور کی کہ میں جب ملک مصر کے کاموں کا انتظام کرچکوں اور خراج مصر کا بقایا سب وصول کر کے داخل خزانہ کر دوں تو پھر مصر سے واپسی میرے اختیار میں رہے کہ جب چاہوں واپس چلا آؤں اور اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ ہارون الرشید نے اس شرط کو منظور کر کے سند گورنری عمر بن مہران کو لکھ دی۔ اس نے مصر میں جا کر موسیٰ بن عیسیٰ سے چارج لیا اور چند روز میں تمام بقایا وہاں کے لوگوں سے وصول کر کے بغداد واپس چلا آیا اور مصر کی گورنری پر ہارون نے اسحاق بن سلیمان کو روانہ کیا۔
ملک شام میں بدامنی:
۱۷۶ھ میں ملک شام کے اندر مضریہ و یمانیہ قبائل کی خانہ جنگی نے ترقی کر کے خطرناک صورت اختیار کی۔ دمشق کا گورنر عبدالصمد بن علی اس خانہ جنگی کے فرو کرنے میں ناکام رہا تو ہارون الرشید نے عبدالصمد کو معزول کر کے ابراہیم بن صالح کو شام کی گورنری پر مامور کیا۔ مگر ابراہیم بن صالح نے یمانیہ قبائل کی درپردہ اعانت و حمایت کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرصہ دراز تک یہ فتنہ فرو نہ ہوا اور قبائل مضر نے دمشق پر قبضہ کر کے کئی مرتبہ حاکم دمشق کو بے دخل اور معطل کیا۔ آخر مجبور ہو کر ہارون الرشید نے جعفر بن یحییٰ برمکی کو شام کی طرف روانہ کیا، اور ۱۸۰ھ میں جعفر برمکی اس فساد کو فرو کرنے کے بعد دار الخلافہ بغداد میں واپس آیا۔
اسی سال یعنی ۱۷۶ھ میں افواج صائفہ کے سردار عبدالرحمن بن عبدالملک بن صالح نے رومیوں کے شہر ویسہ کو فتح کیا اور رومی لشکر کو کئی شکستیں دیں۔